’میں یہ نہیں کر رہا۔۔۔‘ کام کے دوران کبھی کبھی ’انکار‘ کر دینا کیوں ضروری ہے

کبھی کبھی کام کی یہ لگن ہمیں اپنے لیے درد سر کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کام گھر تک آ جاتا ہے، ویک اینڈز کو کھا جاتا ہے اور خاندان و دوستوں کے ساتھ دیے جانے والے وقت کو متاثر کرتا ہے۔ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس افراتفری کو روکنے کا بہترین طریقہ اپنی حدود مقرر کرنے کا گرُ سیکھنا ہے۔
جاب میں پریشانی
Getty Images

ہم اپنی ملازمت کے دوران چیزوں کو سمجھنے اور کام کی صلاحیت میں مہارت حاصل کرتے جاتے ہیں تاہم اپنے باس کو ’نہ‘ کہنا اکثر ہم میں سے بہت سے لوگوں کو ناممکن سا لگتا ہے۔

چاہے ہمارا کام کسی نوعیت کا بھی ہو، ہم اپنے کام سے دوسروں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں، مایوس نہیں۔

مگر کبھی کبھی کام کی یہ لگن ہمیں اپنے لیے درد سر کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کام گھر تک آ جاتا ہے، ویک اینڈز کو کھا جاتا ہے اور خاندان و دوستوں کے ساتھ دیے جانے والے وقت کو متاثر کرتا ہے۔

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس افراتفری کو روکنے کا بہترین طریقہ اپنی حدود مقرر کرنے کا گرُ سیکھنا ہے۔

سکوئیگلی کیریئرز کی شریک بانی کریئر کوچ ہیلن ٹوپر کہتی ہیں کہ لہجے میں ایک چھوٹا سا بدلاؤ بھی ان حدود کو مضبوط بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔

وہ مشورہ دیتی ہیں کہ بجائے آپ کہیں کہ ’میں نہیں کر سکتا‘ آپ کا ’میں نہیں کر رہا‘ کہنا زیادہ مؤثر ہوسکتا ہے۔

ان کے مطابق میں نہیں کر سکتا یا نہیں کر سکتی، کہنے سے دوسروں کو بات چیت یا قائل کرنے کا موقع ملتا ہے اور لوگ کوشش کریں گے کہ آپ کو یقین دلائیں کہ آپ کے لیے یہ آسان ہے۔

لیکن ’میں نہیں کر رہا‘ کہنا زیادہ حتمی اور ناقابلِ بحث بات ہے۔

مثلاً آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’میں بدھ کو شام پانچ بجے کے بعد میٹنگ میں نہیں جا سکتا کیونکہ اس وقت میں اپنے بچوں کو لینے جاتا ہوں۔‘

ماڈل اور ٹی وی شیف لورین پاسکل کہتی ہیں کہ یہ عادت نہ اپنانے کی وجہ سے وہ بالآخر ذہنی و جسمانی طور پر تھک گئیں۔

ٹی وی کریئر کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک پیسٹری شاپ بھی کھولی اور کھانا پکانے سے متعلق کتابیں لکھیں، انھوں نے یہ سب کچھ اپنی بیٹی کی پرورش کے دوران کیا۔

’میں بس نہ کہنا ٹھیک سے نہیں جانتی تھی۔‘

خواتین میں برن آؤٹ زیادہ کیوں

تھکن اور برن آؤٹ
Getty Images
برن آؤٹ کسی کو بھی کسی بھی سطح پر متاثر کر سکتا ہے تاہم خواتین اس سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں

لورین پاسکل ’دی وومنز آور گائیڈ ٹو لائف‘ میں بتاتی ہیں کہ ’آپ لوگوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے اور ہر کوئی آپ کے کان میں انڈیل رہا ہوتا ہے کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے تو آپ بس اس بہاؤ میں بہتے جاتے ہیں۔‘

لورین کے لیے اس تھکاوٹ( برن آؤٹ) کا جسمانی اور ذہنی دونوں طرح اثر ظاہر ہوا یہاں تک کہ وہ ایسے میں کیک کے قریب جانا بھی نہیں چاہتی تھیں۔

’یہ پورے جسم کا ردِعمل تھا ۔ مجھے سینے میں جکڑن سی محسوس ہوتی تھی۔ میں اپنے آپ سے بحث کرتی رہتی تھی، خود کو الزام دیتی تھی، شرمندگی محسوس کرتی تھی اور بہت زیادہ تھکن کا شکار رہتی تھی۔‘

لورین کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ برن آؤٹ کسی کو بھی، کسی بھی سطح پر متاثر کر سکتا ہے۔ اگرچہ اعدادوشمار کے مطابق یہ زیادہ تر خواتین میں دیکھا گیا، جس کی ایک وجہ اُن پر خاندانی ذمہ داریوں کا اضافی بوجھ ہے۔

’دی برن آؤٹ ڈاکٹر‘ کی مصنفہ ڈاکٹر کلیئر ایشلے (جنھوں نے یہ کتاب خود برن آؤٹ کے تجربے کے بعد لکھی) کہتی ہیں کہ عملی طور پر روزانہ کے کام ختم کرنے کے وقت کا ایک واضح معمول اپنانا دماغ کو ’سٹریس سائیکل‘ مکمل کرنے اور فارغ وقت کا لطف اٹھانے میں مدد دیتا ہے۔

لیکن اصل حل اپنے اہداف کو اپنی موجودہ صلاحیت کے مطابق ڈھالنا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’آپ خود سے یہ سوال کریں کہ جو کچھ آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیا وہ آپ کی ذہنی اور جذباتی حالت کے لحاظ سے اس وقت حقیقت پسندانہ ہے۔‘

لورین کے معاملے میں اس کا مطلب تھا کہ کھانا پکانے سے کچھ عرصہ کنارہ کشی اختیار کرنا اور تھیراپی شروع کرنا۔ اس عمل نے اُنھیں یہ سمجھنے میں مدد دی کہ دوسروں کو متاثر کرنے کی اُن کی خواہش اُن کے بچپن میں فوسٹر کیئر (پرورش کے ادارے) کے تجربات سے جڑی ہوئی تھی۔

اب وہ خود نفسیات کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ ’اب بہت بہتر ہیں‘ اور آہستہ آہستہ زیادہ ’سوچ سمجھ کر اور متوازن انداز‘ میں دوبارہ کھانا پکانے کی طرف لوٹ رہی ہیں۔

یقیناً، دباؤ اور لمبے اوقاتِ کار کسی بھی نوکری کا حصہ ہوتے ہیں۔

تاہم اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اپنے ضبط کی انتہا پر پہنچنے والوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ سامنے آ رہا ہے۔ تحقیق میں سامنے آیا کہ گزشتہ سال ہر دس میں سے نو افراد نے زیادہ یا انتہائی سطح کے دباؤ میں گزارا۔

تھکاوٹ اور تناؤ کا احساس کلینیکل برن آؤٹ کے مترادف نہیں یہاں تک کہ اگر ہم اکثر اس اصطلاح کو ہی معمول کے انداز میں استعمال کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ایشلے کا کہنا ہے کہ تھکن، لاتعلقی اور کارکردگی میں کمی برن آؤٹ کی تین اہم علامات ہیں۔

جب تک ہم میں یہ سب علامات نہیں پائی جاتیں تب تک برن آؤٹ قابل تشخیص نہیں لیکن یقینا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس سے مبرا ہیں۔

دوسروں سے موازنے کے بجائے اپنی رفتار سے دوڑیں

تھکن
Getty Images
تحقیق میں سامنے آیا کہ گزشتہ سال ہر دس میں سے نو افراد نے زیادہ یا انتہائی سطح کے دباؤ میں گزارا

ہیلن ٹروپر کے مطابق یہ بہت ضروری ہے کہ ہم کچھ دیر رکیں، اپنی کامیابیوں کو تسلیم کریں اور اُن کا جشن منائیں، بجائے اس کے کہ فوراً اگلے ہدف کی طرف قدم بڑھائیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ خود کا دوسروں، خصوصاً اپنے ساتھیوں سے موازنہ کرنے سے گریز کرنا بھی مددگار ثابت ہوتا ہے اس طرح ہم اپنی ہی رفتار سے اپنی دوڑ لگاتے ہیں۔

یقیناً ہر کوئی کام پر انکار یا مزاحمت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا خاص طور پر کارپوریٹ یا بڑی درجہ بندی والے اداروں میں۔

این ایچ ایس سے وابستہ ماہر نفسیات ڈاکٹر رچرڈ ڈگنز ’برن آؤٹ فری ورکنگ‘ کے مصنف ہیں اور اکثر ایسے مریضوں کی مدد کرتے ہیں جو اپنی حدود متعین کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔

وہ تجویز کرتے ہیں کہ ملازمین کو چاہیے کہ اپنے باس سے بات کریں چاہے وہ تنظیم میں کسی بھی درجے پر ہوں۔

’زیادہ تر مالکان، چاہے وہ کتنے ہی سخت مزاج کیوں نہ ہوں، آپ کی سننے کو تیار ہوتے ہیں اور جب وہ سمجھ جاتے ہیں کہ برن آؤٹ کو روکنا سب کے لیے فائدہ مند ہے تو مثبت تبدیلیاں کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔‘

ان کے مطابق واضح حدود مقرر کرنا، مدد مانگنا، یا کام کے بوجھ میں ردوبدل کرنا سب مددگار ثابت ہو سکتا ہے مگر آخرکار اگر کام کی جگہ کا ماحول تبدیل نہیں ہوتا تو پھر ہمیں اپنی حفاظت کے لیے خود تبدیلی لانی پڑتی ہے۔

ڈاکٹر ایشلے کا کہنا ہے کہ اپنی زندگی کے مختلف مراحل کو سمجھنا بھی اس حوالے سے مددگار ہو سکتا ہے۔

’یہ بالکل ٹھیک ہے اگر کوئی جز وقتی کام کرنے والا یا خاندانی ذمہ داریوں والا فرد کسی کم عمر ساتھی کے برابر کام کا بوجھ نہ اٹھا سکے۔‘

دوسری جانب لورین کا کہنا ہے کہ ’پرعزم ہونا اچھی بات ہے۔ ہمہ وقت چیلینج قبول کرنے کے لیے تیار ہونا ایک خوبصورت صفت ہے تاہم اتنا ضرور سیکھ لیں کہ اکثر اوقات انکار کہنا بھی ٹھیک ہوتا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US