سابق کپتان بابر اعظم لگ بھگ ایک سال بعد ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
بابر اعظم نے آخری مرتبہ دسمبر 2024 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا تھاپاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی اور آئندہ ماہ سہ فریقی سیریز کے لیے پاکستانی سکواڈ کا اعلان کر دیا ہے۔ سابق کپتان بابر اعظم لگ بھگ ایک سال بعد ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
پی سی بی کی جانب سے جمعرات کو 15 رُکنی سکواڈ کا اعلان کیا گیا، جس میں سلمان علی آغا کو ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان برقرار رکھا گیا ہے۔
سکواڈ میں سلمان علی آغا، عبدالصمد، ابرار احمد، بابر اعظم، فہیم اشرف، حسن نواز، محمد نواز، محمد وسیم جونیئر، محمد سلمان مرزا، نسیم شاہ، صاحبزادہ فرحان، صائم ایوب، شاہین شاہ آفریدی، عثمان خان اور عثمان طارق کو شامل کیا گیا ہے۔
محمد رضوان ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ عثمان خان کو وکٹ کیپر بلے باز کے طور پر سکواڈ میں شامل کیا گیا۔
ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم میں شامل فخر زمان، حارث رؤف اور سفیان مقیم کو ریزرو کھلاڑیوں میں شامل کیا گیا۔
وکت کیپر بلے باز محمد حارث ٹیم میں جگہ برقرار نہیں رکھ سکے جبکہ حسین طلعت کو بھی ڈراپ کر دیا گیا۔
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان تین ٹوئنٹی میچز کی سیریز 28 اکتوبر سے یکم نومبر تک راولپنڈی اور لاہور میں کھیلی جائے گی جبکہ پاکستان، سری لنکا اور زمبابوے کی ٹیمیں 17 سے 19 نومبر کے درمیان سہ فریقی سیریز کھیلیں گی جو راولپنڈی اور لاہور میں ہی کھیلی جائے گی۔
زمبابوے سے قبل افغانستان کی ٹیم اس سہ فریقی سیریز کا حصہ تھی لیکن پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ جھڑپوں کے درمیان مبینہ طور پر تین افغان کرکٹرز کی ہلاکت کے بعد افغانستان کرکٹ بورڈ نے اس سیریز سے دستبرداری اختیار کر لی۔

’کنگ‘ کی واپسی پر مداح خوشی سے نہال
بابر اعظم کی ٹی ٹوئنٹی سکواڈ میں واپسی پر اُن کے مداح خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی سابق کپتان کی ٹی ٹوئنٹی سکواڈ میں واپسی کا چرچا ہے۔
ابرار علی حبیب نامی صارف لکھتے ہیں کہ ’یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ بابراعظم تینوں فارمیٹس میں اب پاکستان کرکٹ ٹیم کا حصہ ہیں۔‘
ایمان نامی صارف لکھتی ہیں کہ ’شکر ہے کہ میرے کنگ واپس آ گئے ہیں۔‘
سین وائس کے نام سے صارف لکھتے ہیں کہ جس طرح ایشیا کپ میں پاکستان کا مڈل آرڈر مشکلات سے دوچار رہا، ایسے میں بابر اعظم کی ٹیم میں واپسی اچھا فیصلہ ہے۔
لیکن ساتھ ہی اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ حیران کن طور پر اُنھیں فخر زمان کی جگہ ٹیم میں شامل کیا گیا، جو درست نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ بابر اعظم کو سلمان علی آغا کی جگہ ٹیم میں شامل کیا جانا چاہیے تھا۔
کچھ صارفین رضوان کو ٹی ٹوئنٹی سکواڈ میں شامل نہ کرنے پر بھی سوال اُٹھا رہے ہیں جبکہ بعض لوگ حارث رؤف کو ریزرو کھلاڑیوں میں بھی شامل کرنے پر پریشان ہیں۔
واضح رہے کہ حارث رؤف ایشیا کپ میں خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے تھے۔ انڈیا کے خلاف فائنل میں اُنھوں نے 3٫4 اوورز میں 50 رنز دیے تھے جس کی وجہ سے انڈیا کے لیے پاکستان کی جانب سے دیے گئے 147 رنز کے ہدف تک پہنچنا آسان ہو گیا تھا۔
بابر اعظم نے آخری مرتبہ دسمبر 2024 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلا تھا جس میں اُنھوں نے 20 گیندوں پر 31 رنز بنائے تھے۔
نسیم شاہ آخری مرتبہ نومبر 2024 میں آسٹریلیا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے تھے۔
ایشیا کپ میں پاکستان کی ناقص کارکردگی کے دوران کرکٹ مبصرین بابر اعظم، نسیم شاہ اور محمد رضوان کو سکواڈ میں شامل نہ کرنے پر تنقید کرتے دکھائی دیتے تھے۔
بابر اعظم پاکستان کی جانب سے 128 ٹی ٹوئنٹی میچز میں 39.83 کی اوسط سے 4223 رنز بنا چکے ہیں، اُن کا سٹرائیک ریٹ 129.22 ہے۔
بابر اپنے ٹی ٹوئنٹی کریئر میں تین سنچریاں اور 36 نصف سینچریاں بنا چکے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے محمد رضوان کی جگہ شاہین شاہ آفریدی کو ون ڈے ٹیم کا کپتان مقرر کیا تھا۔
عاقب جاوید کی سربراہی میں پی سی بی نے وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کی جگہ 25 سالہ فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کو فیصل آباد میں جنوبی افریقہ کے خلاف 4 نومبر سے شروع ہونے والی تین میچوں کی سیریز سے قبل 32ویں ون ڈے کپتان کے طور پر نامزد کیا۔
سوشل میڈیا پر پاکستان میں کپتانی کی تبدیلی کو ’میوزیکل چیئر کے کھیل‘ سے تعبیر کیا گیا اور اس فیصلے کے بعد جہاں چیف سیلیکٹر عاقب جاوید کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، وہیں رضوان کے بطور کپتان ریکارڈ کو بھی پیش کیا جا رہا ہے۔
شاہین شاہ نے اس سے قبل ٹی 20 انٹرنیشنل میں پاکستان ٹیم کی کپتانی کر رکھی ہے لیکن نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیم کی خراب کارکردگی کے بعد ان کی جگہ سلمان آغا کو یہ ذمہ داری سونپ دی گئی۔
شاہین شاہ کی قیادت میں لاہور قلندرز نے دو پی ایس ایل ٹائٹل جیتے اور یہ ان کا بڑا کارنامہ کہا جائے گا جبکہ محمد رضوان نے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں میزبان ٹیموں کے خلاف سیریز میں تاریخی فتوحات حاصل کیں لیکن چیمپیئنز ٹرافی، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز میں حالیہ شکستوں کی وجہ سے ان کی ساکھ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
لوگ اس بات پر بھی حیرت میں ہیں کہ اس تبدیلی کی کوئی وضاحت بھی پیش نہ کی گئی۔ درحقیقت، آفیشل بیان میں وکٹ کیپر بلے باز کا ذکر تک نہیں کیا گیا۔ پی سی بی کے مطابق یہ فیصلہ اسلام آباد میں سلیکشن کمیٹی اور وائٹ بال کے ہیڈ کوچ مائیک ہیسن کے درمیان ہونے والی میٹنگ کے بعد کیا گیا۔
محمد رضوان نے 20 ونڈے انٹرنیشنل میں پاکستان کی قیادت کی ہے جس میں انھیں 9 میچوں میں فتح جبکہ 11 میں شکست کا سامنا رہا لیکن آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسی ٹیم کو ان کے عروج پر ان ہی کے گھر میں شکست دینے کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے۔
انھوں نے کپتان کی حیثیت سے 41 رنز فی اننگز سے زیادہ کی اوسط سے رنز بنائے۔ انھوں نے دو ٹیسٹ میچز میں کپتانی کی لیکن دونوں میں انھیں شکست ہوئی اور چار ٹی-20 انٹرنیشنل میں بھی شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔
اگر شاہین شاہ آفریدی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو انھوں نے نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی 20 میں کپتانی کی اور پانچ میچ کی سیریز ایک کے مقابلے چار میچز سے ہار گئے۔
بہر حال پاکستان کرکٹ میں کپتانی کی تبدیلی ٹیم میں عدم استحکام کی نشاندہی کرتی ہے اور وہ بھی اس وقت جب ٹیم 2027 کے ون ڈے ورلڈ کپ کی تیاری کر رہی ہے۔
کرکٹ کے مبصرین کی رائے
بی بی سی نے کرکٹ تجزیہ کار سمیع چودھری سے کپتان رضوان کو ہٹانے کے سبب کے متعلق بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’کپتان کی تبدیلی پی سی بی کے لیے بچوں کے کھیل سا بن گئی، اگر رضوان کی معطلی کی بنیاد چیمپئینز ٹرافی میں کارکردگی تھی تو یہ فیصلہ چھ ماہ پہلے کیوں نہیں ہوا؟ پی سی بی نے جو پریس ریلیز جاری کی، اس میں تو رضوان کا نام تک مذکور نہیں، ایسے میں یہ کسی ادارہ جاتی فیصلے کی بجائے ایک شخصی فیصلہ دکھائی دیتا ہے جس میں شخص کا تعین بھی آسان نہیں۔‘
شاہین شاہ کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’شاہین کی عمر ایسی ہے کہ وہ مزید چار سال بآسانی کھیل سکتے ہیں اور پاکستان کے لیے ایک لانگ ٹرم سرمایہ کاری ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کا پچھلا کپتانی کا دورکامیاب نہیں رہا مگر تب پوری ٹیم ہی تعمیرِ نو سے گزر رہی تھی، اب انھیں ایک مستحکم ٹیم ملی ہے اور وہ اسے مزید آگے لے جانا چاہیں گے۔‘
عاقب جاوید اور لاہور قلندر کے حوالے سے سوال کے جواب میں سمیع چوہدری نے کہا: ’اگر کاغذ پر دیکھا جائے تو دو سال پہلے ہی عاقب جاوید لاہور قلندرز سے علیحدہ ہو چکے ہیں اور تب سے اثرورسوخ قلندرز کا نہیں بلکہ عاقب جاوید کا بڑھا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’محسن نقوی جب بھی کسی ایک پر اعتماد کر بیٹھتے ہیں، ساری لگامیں اس کے ہاتھ تھما دیتے ہیں۔ ان سے پہلے وہاب ریاض کو بھی یونہی خودمختاری دی گئی تھی، اب عاقب کا بھی وہی معاملہ ہے۔‘
رضوان کے بعد لوگ سلمان پر دباؤ کی بات بھی کر رہے ہیںسوشل میڈیا پر شور
پاکستان کرکٹ میں ہر فارمیٹ کے لیے الگ الگ کپتان رکھنے کا نیا رجحان جاری ہے لیکن اس تبدیلی کو لوگ ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔
پاکستان میں کپتانی کو میوزیکل چیئر کا کھیل کہتے ہوئے ایک صارف نے 2023 کے بعد کی فہرست جاری کی ہے۔ کال می شیری-1 نامی ایک صارف کے مطابق:
- نومبر 2023 - بابر اعظم نے کپتانی سے استعفیٰ دے دیا۔
- نومبر 2023 - شاہین آفریدی کو ٹی-20 انٹرنیشنل کپتان مقرر کیا گیا۔
- نومبر 2023 - شان مسعود کو ٹیسٹ کپتان مقرر کیا گیا۔
- مارچ 2024 - شاہین کو کپتانی سے ہٹا دیا گیا۔
- مارچ 2024 - بابر کو دوبارہ ٹی-20 انٹرنیشنل کپتان مقرر کیا گیا۔
- اکتوبر 2024 - بابر اعظم نے دوبارہ استعفیٰ دے دیا۔
- اکتوبر 2024 - رضوان کو سفید گیند کا کپتان مقرر کیا گیا۔
- مارچ 2025 - سلمان علی آغا کو ٹی-20 انٹرنیشنل کا کپتان مقرر کیا گیا۔
- اکتوبر 2025 - رضوان کو ون ڈے سے ہٹا دیا گیا۔
- اکتوبر 2025 - شاہین آفریدی کو ون ڈے کپتان مقرر کیا گیا۔
ایک صارف نے لکھا کہ ’جب رضوان کو وائٹ بال کرکٹ کا کپتان بنایا گیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ان کی نظر 2025 کی چیمپیئنز ٹرافی کے ساتھ 2026 کے ٹی20 ورلڈ کپ اور اولمپکس پر ہے۔ لیکن اب انھیں ہٹا دیا گيا ہے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ 27 اکتوبر 2024 کو رضوان کو وائٹ بال کپتان بنایا گیا، ’پانچ ماہ میں پانچ میچز کے بعد ٹی20 کی کپتانی سے ہٹا دیا گيا اور 11 ماہ میں 22 میچز کے بعد ون ڈے کی کپتانی سے بھی ہٹا دیا گيا۔‘
بہت سے صارفین یہ لکھ رہے ہیں کہ انھیں رضوان کے لیے افسوس ہو رہا ہے۔ ’انھوں نے آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں اور جنوبی افریقہ کو جنوبی افریقہ میں ان کی بلندی کے زمانے میں شکست دی۔ اگرچہ انھیں 2027 ورلڈ کپ تک کے لیے کپتان مقرر کیا گیا تھا لیکن انھیں بغیر کسی وجہ کے ہٹا دیا گيا۔‘
واضح رہے کہ شاہین شاہ آفریدی سابق آل راؤنڈر شاہد آفریدی کے داماد ہیں تاہم بعض صارفین کی جانب سے حمایت بھی سامنے آ رہی ہے۔
عبداللہ نامی صارف نے لکھا: ’مجھے یاد ہے کہ کس طرح انھوں نے صرف ایک سیریز کے بعد انھیں ذلت آمیز طریقے سے کپتانی سے ہٹا دیا۔ وہ واپس گئے اور اپنے کھیل کو بہتر کیا، ایک اور ٹرافی اپنے نام کی اور دوبارہ پاکستان کی قیادت کرنے کے لیے واپس آئے ہیں۔‘
کچھ لوگ شاہین شاہ کے کپتان بننے کے بعد سلمان آغا کے لیے پریشان ہیں اور لکھ رہے ہیں کہ سلمان آغا جنوبی افرقیہ اور سہ فریقی ٹورنامنٹ میں بہت دباؤ میں ہوں گے۔ اگر انھوں نے رنز سکور نہ کیے تو شاہین شاہ ان کی بھی جگہ لے لیں گے۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو شاہین شاہ آفریدی نے گذشتہ دو برسوں میں 22 میچوں میں شرکت کی ہے اور 45 وکٹیں حاصل کی ہیں اور انڈیا کے فاسٹ بولر محمد شامی کے بعد ان کا ریکارڈ بہت بہتر ہے۔
ماہین نامی صارف نے لکھا کہ ’اب شاہین کو 2027 کے ورلڈ کپ تک وقت دیں بنا کسی سیاست کے۔‘