"میں خود کو ناقابلِ شکست سمجھتی تھی، لیکن اللہ نے دکھایا کہ انسان کچھ نہیں ہوتا"
پاکستان کی نامور ماڈل اور اداکارہ ونیزہ احمد، جنہوں نے برسوں فیشن انڈسٹری پر راج کیا اور پھر شاندار اداکاری سے ڈراموں میں بھی اپنی الگ پہچان بنائی، حال ہی میں ندا یاسر کے مارننگ شو میں جذباتی گفتگو کے دوران اپنی زندگی کے سب سے مشکل لمحات اور ایمان افروز تجربات سے پردہ اٹھایا۔
ونیزہ احمد نے گفتگو کے دوران بتایا کہ وہ اپنے والد کی وفات، بہن کے حادثاتی انتقال اور ایک خطرناک بیماری جیسے امتحانات سے گزری ہیں، لیکن ان تمام صدمات نے انہیں اللہ سے قریب تر کر دیا۔
ونیزہ احمد نے بتایا: "میں اپنے دادا کی طرح ڈاکٹر بننا چاہتی تھی، لیکن میرے والد صرف 39 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ داخلے کی آخری تاریخ گزر گئی، تو میں کنیئرڈ کالج میں داخل ہوئی۔ سب کچھ بدل گیا. امی کے پاس تین بچے تھے اور انہیں مردوں کی طرح کمانا پڑا۔ وہ خود زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن انہوں نے پراپرٹی خریدنا، گھر تعمیر کرنا اور بیچنا شروع کر دیا۔ ہم سب نے کم عمر میں خود کو سنبھالا۔ لوگوں کو لگتا تھا کہ چونکہ ہم یتیم ہیں، اس لیے ہمیں معمولی زندگی گزارنی چاہیے، لیکن ہم نے خود کو اس سوچ سے آزاد کیا۔ ہم نے زندگی کے ہر کام خود سیکھے، بجلی کے بل سے لے کر فیصلوں تک سب کچھ۔ میں سمجھتی ہوں کہ جب انسان اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلتا ہے تو اصل ترقی وہیں سے شروع ہوتی ہے۔"
ونیزہ احمد نے اپنی بیماری کے بارے میں بتایا: "میں زندگی میں بہت اچھا کر رہی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ میں ناقابلِ شکست ہوں، کہ کچھ بھی مجھے گرا نہیں سکتا۔ لیکن اللہ نے دکھایا کہ انسان کچھ نہیں ہوتا۔ ایک بار سفر کے دوران سر میں شدید درد ہونے لگا، آنکھوں کے آگے دھند چھا گئی، میں چیزیں بھولنے لگی۔ جب پتا چلا کہ مجھے میننجائٹس ہے، تو علاج شروع ہوا۔ اسی دوران لمف نوڈز میں سوجن ہوئی اور ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان میں کینسر سیلز ہیں. اسٹیج زیرو کینسر۔ میری دوست شاہین مجھے ایک روحانی عامل کے پاس لے گئی، جنہوں نے مجھے کینسر کے لیے دعاؤں کی ایک کتاب دی۔ میں ماننا نہیں چاہتی تھی کہ مجھے کینسر ہے، مگر میں نے وہ دعائیں چپکے چپکے پڑھنی شروع کر دیں۔ ایک مہینے بعد جب دوبارہ ٹیسٹ ہوا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ شاید پہلے رپورٹ میں غلطی تھی، کیونکہ اب کوئی کینسر سیلز نہیں تھے۔ اس لمحے مجھے یقین ہو گیا کہ دعا کی طاقت حقیقی ہے۔ آج میں جانتی ہوں کہ قرآن میں شفا ہے, اس کی تلاوت خود انسان کو ٹھیک کر دیتی ہے۔"
ونیزہ احمد نے اپنی چھوٹی بہن عائشہ کے حادثے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "ہر کوئی ایک دن جانا ہے، یہ اٹل حقیقت ہے۔ لیکن جب میری بہن 25 سال کی عمر میں ایک کار حادثے میں دنیا سے چلی گئی، تو میری زندگی بدل گئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی موت قبل از وقت تھی، مگر میں نے سمجھا کہ کوئی موت بے وقت نہیں ہوتی۔ میں نے تحقیق کی کہ روح مرنے کے بعد کہاں جاتی ہے، اور تب سمجھا کہ وہ اپنا مقصد پورا کر کے ایک جہان سے دوسرے جہان چلی گئی۔ ہم سب کا یہی سفر ہے۔ اللہ کی کائنات بہت وسیع ہے، اور ہم اس کے نظام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ جب ہماری روح کا مقصد مکمل ہو جاتا ہے، تب ہمیں جانا ہوتا ہے۔ میری بہن کی موت نے مجھے یہ احساس دلایا کہ دنیا فانی ہے اور اسی احساس نے مجھے اللہ کے قریب کر دیا۔"
ونیزہ احمد کی کہانی صرف کامیابیوں کی نہیں بلکہ صبر، حوصلے اور ایمان کی بھی ہے۔ ایک وقت تھا جب وہ پاکستان کی ٹاپ ماڈل کہلاتی تھیں، بعدازاں ڈرامہ انڈسٹری میں بھی شاندار کام کیا "عہدِ وفا" اور "کچھ ان کہی" میں ان کی اداکاری نے انہیں ایک بار پھر ناظرین کے دلوں میں جگہ دی۔ لیکن آج وہ اپنی پہچان ایک ایسی عورت کے طور پر کروا رہی ہیں جس نے دنیا کی آزمائشوں کو روحانی طاقت سے جیتا۔
انہوں نے گفتگو کے آخر میں کہا کہ وہ آج اپنی زندگی کے ہر لمحے میں شکر ادا کرتی ہیں، کیونکہ ہر دکھ، ہر زخم، دراصل اللہ کی طرف لوٹنے کی دعوت ہوتی ہے۔