کے الیکٹرک میں سرمایہ کاری کرنے والے سعودی اور کویتی سرمایہ کاروں نے حکومتِ پاکستان کو 2 ارب ڈالر ہرجانے کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے سرمایہ کاری کے حقوق کی خلاف ورزی کی جس کے نتیجے میں انہیں شدید مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
سرمایہ کاروں میں سعودی عرب کا الجومایا گروپ اور کویت کا ڈنہم انویسٹمنٹس لمیٹڈ شامل ہیں، جن کی قانونی نمائندگی لندن کی لا فرم اسٹیپٹو انٹرنیشنل (یو کے) ایل ایل پی کر رہی ہے۔
20 اکتوبر کو جاری کیے گئے اس نوٹس کی کاپی اٹارنی جنرل پاکستان، وزیراعظم آفس اور اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل کو بھی بھجوائی گئی ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کو آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن کی سرمایہ کاری کے تحفظ سے متعلق معاہدے کے تحت کسی ایسے دعوے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سرمایہ کاروں کا مؤقف ہے کہ حکومت نے بارہا اپنے بین الاقوامی وعدوں کی خلاف ورزی کی، کے الیکٹرک کے کاروباری امور میں رکاوٹ ڈالی، ادائیگیوں میں تاخیر کی، ریگولیٹری معاملات میں مداخلت کی اور ان کے سرمائے کو غیر قانونی سرگرمیوں سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ان اقدامات کے باعث شیئر ویلیو میں کمی، شنگھائی الیکٹرک کو شیئرز فروخت نہ ہو پانا، قرضوں کے بوجھ میں اضافہ اور بدنامی سمیت مجموعی طور پر 2 ارب ڈالر سے زائد نقصان ہوا ہے۔
سرمایہ کاروں نے حکومت سے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی پیشکش کی ہے تاہم واضح کیا ہے کہ اگر معاملہ طے نہ ہوا تو وہ بین الاقوامی ثالثی کے لیے OIC معاہدے کے تحت کارروائی شروع کر سکتے ہیں۔
نوٹس میں 67 صفحات پر مشتمل تفصیل کے ساتھ تین بنیادی تنازعات درج کیے گئے ہیں جن میں شنگھائی الیکٹرک کو شیئرز کی فروخت میں رکاوٹ، سرکاری اداروں کی طرف سے کے الیکٹرک کو واجبات کی عدم ادائیگی اور نیپرا پر مبینہ دباؤ کے ذریعے کمپنی کے ٹریف فارمولے میں تبدیلی، جس کے باعث کے الیکٹرک کو سالانہ تقریباً 100 ارب روپے کا نقصان پہنچنے کا دعویٰ کیا گیا ہے اور ایک پاکستانی بزنس مین شہریار چشتی کی جانب سے آف شور کمپنیوں کے ذریعے خفیہ اور غیر قانونی انداز میں کنٹرول حاصل کرنے اور 10.35 ارب روپے کی مبینہ ہیرا پھیری کا الزام بھی شامل ہے۔