پاکستانی صحافت کی تاریخ میں جب بھی جرأت، سچائی اور تحقیقاتی صحافت کا ذکر ہو گا تو ارشد شریف شہید کا نام لازوال مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وہ ان گنت صحافیوں کے لیے حوصلے کی علامت بنے رہے جنہوں نے اقتدار کے ایوانوں میں چھپے سچ کو بے نقاب کرنے کا عزم کیا۔ ارشد شریف ایک ایسے صحافی تھے جو اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے، چاہے اس کی قیمت اپنی جان سے ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑی۔
ارشد شریف ایک فوجی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد اور بھائی دونوں پاک فوج میں خدمات انجام دے چکے تھے جبکہ ان کے بڑے بھائی بھی فرض کی ادائیگی کے دوران شہید ہوئے۔ اپنے خاندان کی اسی بہادری اور وطن سے محبت کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے ارشد شریف نے بھی اپنی زندگی سچ اور انصاف کے لیے وقف کر دی۔
ان کی شہادت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ارشد شریف کو کینیا میں اس وقت شہید کیا گیا جب وہ اپنی جان کے تحفظ کے لیے ملک سے باہر تھے۔ ان کی المناک موت کو پاکستان کی تاریخ کے سب سے ہائی پروفائل قتل کیسز میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج تک ان کے اہل خانہ انصاف کے منتظر ہیں، اور اس جدوجہد میں سب سے نمایاں کردار ان کی والدہ رفعت آراء علوی کا رہا۔
رفعت آراء علوی ایک مضبوط اور حوصلہ مند ماں تھیں۔ اپنے بیٹے کی شہادت کے بعد انہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ سپریم کورٹ کے دروازے تک پہنچی، طاقتوروں کے نام لیے، اور کھلے عام انصاف کا مطالبہ کرتی رہیں۔ انہوں نے وہ سب کہا جسے کہنے کی ہمت بہت کم لوگ کر پاتے ہیں۔
تاہم، تین برس تک بیٹے کے لیے لڑنے کے بعد آخرکار وہ خود اس فانی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ خاندان کے قریبی ذرائع کے مطابق، رفعت آراء علوی مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔ ان کے انتقال کی تصدیق خاندان اور قریبی دوستوں نے کر دی ہے۔
ارشد شریف کے قریبی دوست اور ساتھی عادل راجہ نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اس افسوسناک خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف کی والدہ اب اپنے شہید بیٹے کے پاس پہنچ چکی ہیں۔
ارشد شریف کی والدہ کا انتقال ان تمام لوگوں کے لیے ایک دل گرفتہ لمحہ ہے جو سچائی، قربانی اور حوصلے پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ماں جو اپنے بیٹے کے لیے انصاف مانگتی رہی، اب خود اپنے بیٹے کے ساتھ ابدی سکون پا چکی ہیں۔