پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدہ تعلقات کے بیچ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں افغانستان میں ہونے والی ایک سرکاریتقریب میں افغان وزیر کو ’گریٹر افغانستان‘ کا نقشہ پیش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدہ تعلقات کے بیچ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں افغانستان میں ہونے والی ایک سرکاریتقریب میں افغان وزیر کو ’گریٹر افغانستان‘ کا نقشہ پیش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
افغانستان کے سرکاری نشریاتی ادارے ’آر ٹی اے‘ اور ’طلوع نیوز‘ کے مطابق یہ تقریب پاکستانی سرحد کے قریب واقع صوبہ خوست میں 28 اکتوبر کو ہوئی۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری نے کہا کہ ’افغانستان پر ایک بار پھر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’افغانستان کی پالیسی ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور کسی کو بھی اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
اسی تقریب کی وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی وردی میں ملبوس دو بچے ایک شیلڈ افغان نائب وزیر داخلہ کو پیش کرتے ہیں جس میں افغانستان کے نقشے میں پاکستانی علاقے خیبر پختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان بھی شامل کیے گئے ہیں۔
افغان صحافی سمیع یوسفزئی نے بھی اس تقریب کا یہ کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’افغانستان اور پاکستان کی جانب سے اس قسم کی اشتعال انگیز ویڈیوز کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیں گی اور اس سے امن کے کسی بھی موقع کو نقصان پہنچے گا۔‘
واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران سرحدی معاملات پر بھی دونوں جانب سے سخت بیانات آتے رہے ہیں۔
گذشتہ ماہ دوحہ مذاکرات کے فوری بعد افغان طالبان نے ایک بار پھر ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرنے سے انکار کا اپنا موقف دہرایا تھا۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی معاملات اب بھی حل طلب ہیں۔
لیکن دوسری جانب پاکستان کا کہنا تھا کہ ڈیورنڈ لائن بین الاقوامی سرحد ہے اور یہ معاملات کئی دہائیوں پہلے ہی طے پا گئے تھے۔
’گریٹر افغانستان‘ کیا ہے؟
تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن پاکستان کے قیام سے ہی افغانستان کے لیے ایک تاریخی تنازع رہی ہے اور یہیوجہہے کہ افغانستان نے پاکستان کے قیام کو فوری طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیورنڈ لائن سے متعلق اس طرح کے دعوے کو نظرانداز کرتا رہا ہے۔
اُن کے بقول ’ڈیورنڈ لائن پشتون علاقوں کو تقسیم کرتی تھی، جو افغان عوام کے نزدیک ناقابل قبول تھی۔ حتیٰ کہظاهر شاه کی بادشاہت کے دور میں بھی افغان پارلیمنٹ نے کبھی کبھار اس سرحد پر تحفظات کا اظہار کیا۔‘
اُن کے بقول ’اس تاریخی دعوے کا مطلب یہنہیں ہے کہ افغانستان پاکستان کے ساتھفوری تصادمچاہتا ہے۔ عملی طور پر موجودہ یا سابق افغان حکومتیں اس سرحد کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔‘
سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ ’پاکستان، افغان حکام کے اس تاریخی موقف کے حوالے سے ہمیشہ فکر مند رہتا ہے اور اسے کشیدگی کا ممکنہ ذریعہ بھی سمجھتا ہے۔ لیکن پاکستان کے لیے فی الحال یہ کوئی حقیقی خطرہ نہیں ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایسے ہی کہ کوئی کسی کی جائیداد اور زمین پر دعویٰ کر کے اُسے پریشان کرنے کی کوشش کرے۔‘
تاہم افغانستان اور پاکستان کی تاریخ اس حوالے سے کیا بتاتی ہے؟
ڈیورنڈ لائن تنازع
ڈیورنڈ لائن افغانستان اور پاکستان کے درمیان تقریباً 2,600 کلومیٹر طویل سرحد ہے، جو 1893 میں برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان قائم ہوئی لیکن سنہ 1947 میں قیام ِ پاکستان کے بعد سے افغانستان کی جانب سے اس پر مختلف اعتراضات کے باعث دونوں ملکوں میں تنازع کی ایک بڑی وجہ ہے۔
اس لائن کا مغربی سرا ایران کی سرحد سے جا ملتا ہے جبکہ مشرقی سرا چین کی سرحد سے۔ اس کی ایک جانب افغانستان کے 12 صوبے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کے علاقے خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان واقع ہیں۔
ڈیورنڈ لائن کا نام برطانوی ہند کے خارجہ سیکرٹری سر ہینری مارٹیمر ڈیورنڈ کے نام پر رکھا گیا جن کا افغانستان کے امیر عبدالرحمٰن خان کے ساتھ معاہدہ ہوا۔
اس لائن کا مغربی سرا ایران کی سرحد سے جا ملتا ہے جبکہ مشرقی سرا چین کی سرحد سے۔ اس کی ایک جانب افغانستان کے 12 صوبے ہیں اور دوسری جانب پاکستان کے علاقے خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان واقع ہیں۔