وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ اسٹرکچرل اصلاحات مکمل نہ کی گئیں تو پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پروگرام سے مستقل چھٹکارا ممکن نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار معاشی ترقی اور خودمختاری صرف اصلاحات کی تکمیل سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
اسلام آباد میں وفاقی وزراء اویس لغاری، شزہ فاطمہ خواجہ، چیئرمین ایف بی آر اور سیکریٹری خزانہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ریاستی اداروں میں بڑی اصلاحات کی جا چکی ہیں جبکہ وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پر تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب، چین اور خلیجی ممالک نے پاکستان کی مالی استحکام میں بھرپور مدد فراہم کی ہے۔
سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ رواں مالی سال میں 8.3 ٹریلین روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 9.8 ٹریلین روپے کے قرضے واپس کیے جائیں گے۔ اب تک 2.6 ٹریلین روپے کے قرضے واپس ہو چکے ہیں۔انہوں نےکہا کہ جلد پانڈا بانڈ اور بعد ازاں یورو بانڈ جاری کیے جائیں گے۔ مزید بتایا کہ نئے سرکاری ملازمین کو ڈائریکٹ کنٹری بیوشن پنشن اسکیم کے تحت بھرتی کیا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک نئی کمپنی قائم کی جا رہی ہے۔
چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ انکم ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ادارے کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ ایف بی آر میں گورننس ریفارمز کے تحت افسران کو A، B، C کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ان کے مطابق شوگر سیکٹر کی ڈیجیٹائزیشن سے 75 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوا جبکہ ریٹیلرز سے حاصل ہونے والا ٹیکس 82 ارب سے بڑھ کر 166 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ حکومت بجلی کی خرید و فروخت کے کاروبار سے باہر آرہی ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار 1.2 کھرب روپے کا سرکلر ڈیٹ صارفین پر بوجھ ڈالے بغیر ختم کیا جا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ بجلی کی لاگت 9.97 روپے فی یونٹ ہے، تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر صنعتوں کے لیے نرخ 16 روپے فی یونٹ کم کیے گئے ہیں۔اویس لغاری کے مطابق پاور پلانٹس کے مالکان سے مذاکرات کے نتیجے میں 2058 تک 3600 ارب روپے کی اضافی ادائیگی روکی گئی ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے نجکاری محمد علی نے کہا کہ 2024 کے نجکاری پروگرام میں 24 ادارے شامل ہیں، جن میں پی آئی اے سرفہرست ہے۔ چار کنسورشیم ادارے پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کر چکے ہیں اور ہدف ہے کہ یہ عمل رواں سال مکمل کر لیا جائے۔انہوں نے بتایا کہ 20 وزارتوں کی رائٹ سائزنگ مکمل ہو چکی ہے اور 54 ہزار آسامیاں ختم کرنے سے 56 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
وزیرِ مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا کہ کیش لیس اکانومی کے فروغ کے لیے وزیراعظم کی سربراہی میں باقاعدہ اجلاس ہو رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ نیشنل ڈیٹا ایکسچینج لیئر کا پائلٹ پراجیکٹ دسمبر میں متعارف کرایا جائے گا، جس سے ٹیکس نیٹ میں توسیع اور مالی لیکجز میں کمی آئے گی۔
شزہ فاطمہ نے کہا کہ پاکستان کی اصل معیشت 800 ارب ڈالر تک ہوسکتی ہے کیونکہ موجودہ 400 ارب ڈالر کی معیشت کا نصف حصہ انفارمل اکانومی پر مشتمل ہے۔انہوں نے بتایا کہ جون 2026 تک ڈیجیٹل پیمنٹس کے صارفین کی تعداد 20 لاکھ تک پہنچانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔