"میں اپنی سہیلی کے گھر بیٹھی تھی۔ اُن کے بچے اور ملازمہ کے بچے ساتھ کھیل رہے تھے۔ اچانک اُن کے بچوں نے اپنا گلّہ توڑا اور اس میں سے 10 سے 15 ہزار روپے نکل آئے۔ اُن کے دادا نے فوراً کہا کہ یہ پیسے ملازمہ کے بچوں کے ساتھ بانٹ دو۔ کچھ دیر بعد وہی بچے روتے ہوئے واپس آئے۔ بعد میں پتا چلا کہ جب انہوں نے پیسے بانٹے تو اپنے الفاظ سے دوسرے بچوں کا دل دکھایا۔ انہیں کہا گیا کہ ‘تم لوگ غریب ہو، تم نے اتنے پیسے کبھی نہیں دیکھے ہوں گے، تمہارے باپ نے بھی اتنی رقم نہیں دیکھی ہوگی کیونکہ تمہارے گھر میں تو گلّہ ہی نہیں ہوتا۔' مجھے اُس لمحے بہت دکھ ہوا۔ اتنی تعلیم اور اچھے گھرانے کے باوجود اگر ہم اپنے سے کم حیثیت لوگوں کی عزت نہ سکھا سکیں تو یہ ہماری تربیت کی ناکامی ہے۔ میرے گھر میں میری بیٹی زارا نور اپنی بیٹی کو چھوٹی عمر سے ہی سکھاتی ہے کہ گھر میں کام کرنے والی کو باجی کہنا ہے، ان سے احترام سے بات کرنی ہے۔ یہ سارا قصور بچوں کا نہیں، والدین کا ہے۔ بچوں کو ہم ہی سکھاتے ہیں کہ انسانیت کیا ہے اور عزت کیسے دینی ہے۔ ہمارے گھر کا اسٹاف ہمارے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے، وہ قابلِ احترام ہیں اور خاندان کا حصہ ہوتے ہیں۔"
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی سینئر اداکارہ اسماء عباس نے حالیہ وی لاگ میں ایک واقعہ بیان کیا جس نے انہیں شدید رنج پہنچایا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دوست کے گھر دورے کے دوران انہوں نے دیکھا کہ ملازمہ کے بچے میزبان کے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ گلّہ ٹوٹنے سے نکلے پیسوں کو آپس میں بانٹنے کی بات ہوئی تو سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا تھا، لیکن جلد ہی صورتحال نے افسردگی کی شکل اختیار کر لی۔
اسماء عباس کے مطابق، جب پیسے بانٹنے کا وقت آیا تو میزبان خاندان کے بچوں نے ملازمہ کے بچوں کو ایسے جملے کہے جن میں اعتماد کے بجائے تکبر اور احساسِ برتری جھلک رہا تھا۔ بچوں کے یہ جملے، جن میں دوسرے بچوں کی غربت کا طعنہ دیا گیا اور اُن کے گھر کے حالات کا مذاق اڑایا گیا، ان کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی رویے معاشرے میں تقسیم کو گہرا کرتے ہیں اور بچوں کے ذہنوں میں غرور اور امتیاز کی بنیاد بناتے ہیں۔
اداکارہ نے کہا کہ اگر والدین خود اپنے گھر کے عملے کی عزت نہیں کرتے یا بچوں کو ان کی اہمیت نہیں بتاتے تو گھر کے بچے معاشرتی اخلاقیات کیسے سیکھیں گے؟ انہوں نے اپنی بیٹی زارا نور کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ زارا اپنی بیٹی کو بچپن سے ہی سکھا رہی ہیں کہ گھر کے کام میں مدد کرنے والوں کے ساتھ نرمی، عزت اور اُدب سے پیش آنا ہے۔
اسماء عباس نے زور دیا کہ مالی حیثیت کبھی انسانیت کا پیمانہ نہیں بننا چاہیے۔ گھریلو ملازمین ہمارے لیے سہولت پیدا کرتے ہیں، ہمارے روزمرہ کے نظام کو آسان بناتے ہیں، اور ان کا احترام کسی احسان کے طور پر نہیں بلکہ اخلاقی ذمہ داری کے تحت ضروری ہے۔ انہوں نے والدین اور بزرگوں پر زور دیا کہ وہ اپنے بچوں کو صرف تعلیم نہ دیں بلکہ تربیت بھی دیں تاکہ اگلی نسل معاشرتی احترام اور انسانی وقار کے احساس کے ساتھ پروان چڑھے۔