پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے ضلع پنجگور میں مبینہ طور پر ایک سکیورٹی آپریشن کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی خاتون کے بارے میں طبی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ خاتون کی ہلاکت زخموں کے باعث ہوئی، تاہم ابتدائی طبی معائنے میں اُن کے ساتھ جنسی زیادتی کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے ضلع پنجگور میں مبینہ طور پر ایک سکیورٹی آپریشن کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی خاتون کے بارے میں طبی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ خاتون کی ہلاکت زخموں کے باعث ہوئی، تاہم ابتدائی طبی معائنے میں اُن کے ساتھ جنسی زیادتی کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
سکیورٹی حکام کا دعویٰ ہے کہ نازیہ شفیع نامی خاتون شدت پسندوں کے خلاف 28 اکتوبر کو پنجگور میں کی گئی کارروائی کا براہ راست ہدف نہیں تھیں اور یہ کہ وہ شدت پسندوں کی جانب سے مبینہ طور پر انسانی ڈھال بنائے جانے کی وجہ سے کارروائی کی زد میں آئیں اور زخمی ہوئیں۔
تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کا الزام ہے کہ نازیہ شفیع اور اُن کی والدہ کو لاپتہ کیا گیا، غیرقانونی حراست میں اُن پر جسمانی و جنسی تشدد ہوا جس کے بعد خاتون بیہوشی کے عالم میں ٹیچنگ ہسپتال پنجگور میں پائی گئیں جہاں دورانِ علاج اُن کی موت ہو گئی۔
بی بی سی آزادنہ طور پر ان دعوؤں اور الزامات کی تصدیق نہیں کر سکا ہے جبکہ کوششوں کے باوجود نازیہ شفیع کے اہلخانہ یا رشتہ داروں سے رابطہ بھی نہیں ہو پایا ہے۔
تاہم ضلع پنجگور کے ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار، جن کے مطابق وہ اس واقعے کی مکمل تفصیلات کا علم رکھتے ہیں، اور پنجگور انتظامیہ کے ایک سینیئر افسر، جنھوں نے اس واقعے کے بعد ہسپتال کا دورہ کیا تھا، نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کی ہے اور اس کارروائی سے متعلق کچھ تفصیلات فراہم کی ہیں۔
اسی طرح ضلع پنجگور کے ٹیچنگ ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر وزیر نے بھی بی بی سی کو کچھ تفصیلات فراہم کی ہیں۔ یاد رہے کہ زخمی حالت میں نازیہ نامی خاتون کو اسی ٹیچنگ ہسپتال ہی منتقل کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر وزیر کے مطابق جب زخمی خاتون کو ہسپتال لایا گیا تو وہ چھٹیوں کی وجہ سے پنجگور سے باہر تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ واقعہ پیش آنے کے بعد ہسپتال کے عملے نے انھیں اطلاع دی جب خاتون کو سکیورٹیفورسز کے اہلکاروں نے ہسپتال پہنچایا تو اُس وقت اُن کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔
’جب مجھے ہسپتال کے عملے نے اطلاع دی تو میں نے ڈپٹی کمشنر کو فون کر کے نفری بھیجنے کی درخواست کی اور چونکہ زخمی ہونے والی خاتون تھیں، اس لیے میں نے اُن کے معائنے کے لیے ایک خاتون ڈاکٹر کو ہسپتال پہنچنے کی ہدایت کی۔‘
ڈاکٹر وزیر کے مطابق خاتون کے معائنے کے بعد انھیں جو رپورٹ دی گئی اُس کے مطابق، خاتون کے سر پر زخم تھے اور یہ زخم کوئی بیرونی چیز لگنے کی وجہ سے آئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ جہاں تک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی سے متعلق الزامات اور دعوؤں کی بات ہے، تو ابتدائی طبی معائنے میں اس کے شواہد نہیں ملے ہیں۔یاد رہے کہ خاتون کا ابتدائی طبی معائنہ ہوا تھا، پوسٹ مارٹم نہیں۔
دوسری جانب پنجگور میں انتظامیہ کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ جب انھیں خاتون کی زخمی ہونے کی اطلاع ملی تو وہ خود ہسپتال پہنچے تھے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ایف سی نے پنجگور کے علاقے تسپ میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی تھی جس کی زد میں آ کر یہ خاتون زخمی ہوئی تھیں۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ خاتون کی حالت تشویشناک تھی، اس لیے ٹیچنگ ہسپتال پنجگور میں انھیں ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے بعد مزید علاج کے لیے کراچی منتقل کیا جا رہا تھا جب وہ راستے میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔
پنجگور میں ایک سینیئر سکیورٹی افسر نے دعویٰ کیا کہ خاتون سکیورٹی فورسز کی کارروائی کا ہدف نہیں تھیں۔ انھوں نے 28 اکتوبر کو ہونے والی کارروائی کا پس منظر بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ چند سال قبل پنجگور میں قمر شہید پوسٹ پر نامعلوم شدت پسندوں نے ایک بس کی تلاشی کے بعد پانچ افراد کو اُتارا تھا اور بعدازاں بس سے یرغمال بنائے گئے ایف سی کے جے سی او قمر کو قتل کر دیا گیا۔
اس واقعے کے بعد ایف سی کی فوری جوابی کارروائی کے نتیجے میں تین مسلح افراد ہلاک کر دیے گئے جبکہ دو گرفتار ہوئے جن کا تعلق مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔
سکیورٹی افسر کے مطابق 30 اگست 2025 کو اِسی چیک پوسٹ پر ایک مرتبہ پھر شدت پسندوں کی جانب سے حملہ کیا گیا اور بعدازاں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ولایت مکران) کے نام سے ایک ویڈیو ریلیز کرتے ہوئے کہا گیا کہ حالیہ حملہ ماضی میں اسی پوسٹ پر ایف سی کے ہاتھوں مارے جانے والے ساتھیوں کا انتقام تھا۔
سینیئر سکیورٹی افسر نے مزید دعویٰ کیا کہ ان واقعات کے بعد ہونے والی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ پنجگور اور اس کے گردونواح میں جو لوگ کارروائیوں میں مصروف ہیں وہ پنجگور ہی میں رہائش پذیر ہیں اور اسی انٹیلیجنس کی بنیاد پر 28 اکتوبر کو ایک کارروائی کی گئی جس میں دو افراد مارے گئے جبکہ دیگر دو افراد نے اُس کمرے میں پناہ لے لی، جہاں یہ خاتون موجود تھیں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن دونوں مسلح افراد نے خاتون کو بطور انسانی ڈھال استعمال کیا جس کے باعث وہ زخمی ہوئیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس کارروائی کے دوران اس خاتون کے ماموں کو گرفتار کیا گیا جبکہ ان کا ایک بھائی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب رہا۔
انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ کارروائی میں زخمی ہونے والی خاتون کو طبی امداد کے لیے پہلے ایف سی ہسپتال منتقل کیا گیا جس کے بعد انھیں ٹیچنگ ہسپتال پنجگور منتقل کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ اس کارروائی کے بعد سکیورٹی فورسز پر بے بنیاد الزامات لگانے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور ’یہ الزام لگانے والے وہی عناصر ہیں جو ہمیشہ سکیورٹی فورسز کو بدنام کرنے کے لیے اس طرح کا پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔‘
یاد رہے کہ جب زخمی ہونے والی خاتون کو ٹیچنگ ہسپتال پنجگور لایا گیا تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر حکومت اور سکیورٹی فورسز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بعض دیگر تنظیموں کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا گیا کہ نازیہ شفیع اور اُن کی والدہ پر غیر قانونی حراست کے دوران جسمانی و جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بعدازاں انھیں بے ہوشی کی حالت میں ٹیچنگ ہسپتال کے قریب پھینک دیا گیا جہاں دوران علاج ان کی موت ہو گئی۔
بلوچ یکجہتی کے بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ اب تک بڑی تعداد میں بلوچ خواتین اجتماعی سزا کی پالیسی کی وجہ سے تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔ بیان میں بین الاقوامی اداروں سے نازیہ شفیع کی موت کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
بی بی سی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی سے یہ پتا کرنے کی کوشش کی انھیں ان تفصیلات کا علم کیسے ہوا؟
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی خاتون رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والی خاتون کے بارے میں معلومات اُن کی تنظیمکے اُن لوگوں سے حاصل کیں جو ہسپتال میں موجود تھے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس حوالے سے ہلاک ہونے والی خاتون کے مبینہ ماموں کا ایک ویڈیو بیان بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ یاد رہے کہ سکیورٹی افسر نے بی بی سی کو یہ بیان فراہم کیا جس میں ایک شخص دعویٰ کر رہا ہے کہ ہلاک ہونے والی نازیہ شفیع کے شدت پسند تنظیم سے رابطے تھے۔ بی بی سی اس ویڈیو کے مصدقہ ہونے کی آزادنہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
ڈاکٹر صبیحہ نے الزام عائد کیا کہ اس واقعے کے حوالے سے بہت سارے حقائق چھپائے گئے ہیں۔ ’ہمارا مطالبہ ہے کہ اس سلسلے میں آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہییں تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں۔‘