آج کل سوشل میڈیا پر مصنوعی ذہانت (یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا اے ائی) کی مدد سے بنائی جانے والی ویڈیوز کی بھرمار ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لوگ اکثر دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ 
                    
آج کل سوشل میڈیا پر مصنوعی ذہانت (یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا اے ائی) کی مدد سے بنائی جانے والی ویڈیوز کی بھرمار ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لوگ اکثر دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ سوشل میڈیا پر نظر آنے والی ایسی جعلی ویڈیوز کو کیسے پہچانیں کہ کون سی ویڈیو یا مواد ای آئی کی مدد سے بنایا گیا ہے؟
پچھلے کچھ مہینوں کے دوران کچھ ہائی پروفائل اے آئی ویڈیوز نے بڑی تعداد میں لوگوں کو بیوقوف بنایا۔ ان سب میں کچھ ایسا تھا جو مشترک تھا۔ ٹرامپولین پر چھلانگ لگانے والے جنگلی خرگوشوں کی ایک جعلی لیکن خوشگوار ویڈیو کو ٹک ٹاک پر 24 کروڑ سے زیادہ کمٹنس ملے۔
لاکھوں افراد نے نیو یارک سب وے پر دو لوگوں کے پیار کرنے والے کلپ کو لائیک کیا، لیکن انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب یہ جعلی نکلا۔
میں ذاتی طور پر ایک قدامت پسند چرچ میں ایک امریکی پادری کی ایک وائرل ویڈیو کو سچ سمجھ بیٹھا تھا جو حیرت انگیز طور پر بائیں بازو کے خیالات کی بات کر رہا تھا۔ ’ارب پتی واحد اقلیت ہیں جن سے ہمیں ڈرنا چاہیے۔‘
میں دنگ رہ گیا۔ لیکن یہ ایک اور اے آئی تھا۔
پچھلے چھ مہینوں میں اے آئی ویڈیو بنانے والے ٹولز بھی بہت بہتر ہوئے ہیں اور شاید آپ بار بار بیوقوف بنیں، جب تک کہ آپہر ایک چیز کو سوالیہ نظر سے نہ دیکھنا شروع کر دیں۔ 
مستقبل میں خوش آمدید۔ لیکن کچھ ایسی نکات ہیں جن پر غور کیا جانا چاہیے۔ ایک تو بہت واضح ہے۔
اگر آپ ایک ایسی ویڈیو دیکھتے ہیں جس کی کوالٹی خراب ہے، فوٹیج بھی دھندلی ہے تو آپ کے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنی چاہییں کہ آپ ایک اے آئی ویڈیو دیکھ رہے ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے میں کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر ہینی فرید کہتے ہیں ’یہ پہلی چیز ہے جس پر ہم نظر ڈالتے ہیں۔‘
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اے آئی ویڈیو ٹولز اور بھی بہتر ہوجائیں گے اور یہ مشورہ بھی جلد ہی بیکار ہو جائے گا۔
لیکن اگر آپ ایک منٹ کے لیے میرے ساتھ باریکی سے مشاہدہ کریں تو یہ مشورہ آپ کی کسی حد تک مدد کر سکتا ہے۔
امریکہ کی ڈریکسل یونیورسٹی میں ملٹی میڈیا اینڈ انفارمیشن سیکیورٹی لیب کے پروفیسر اور سربراہ میتھیو سٹام کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کو کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے جو واقعی کم معیار کی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ جعلی ہے۔‘
یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس پر گہری نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔
فرید کا کہنا ہے کہ ’گوگل کے ویو اور اوپن اے آئی کے سورا جیسے معروف ٹیکسٹ ٹو ویڈیو جنریٹر اب بھی چھوٹے تضادات پیدا کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایسا نہیں کہ چھ انگلیاں یا گڑبڑ شدہ متن ہوگا بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘
یہاں تک کہ آج کے سب سے زیادہ اعلی درجے کے ماڈل بھی اکثر غیر معمولی طور پر ہموار جلد کی بناوٹ، بالوں اور لباس میں عجیب و غریب یا بدلتے ہوئے پیٹرن، یا پس منظر کی چھوٹی اشیاء کے غیر حقیقی یا ناممکن انداز میں حرکت جیسے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ 
یہ آسانی سے نظر انداز ہو سکتے ہیں لیکن تصویر جتنی واضح ہو گی اتنا ہی امکان ہے کہ آپ ان چیزوں کو شناخت کر لیں گے جو بتاتی ہیں کہ یہ اے آئی ہے۔
یہی وہ چیز ہے جو کم معیار کی ویڈیوز کو اتنا پرکشش بناتی ہے۔
جب آپ اے آئی سے کہتے ہیں کہ ایسی چیز بنائے جو ایسا لگتا ہے کہ اسے کسی پرانے فون یا سکیورٹی کیمرے سے بنائی گئی ہو، تو یہمصنوعی چیزوں کو چھپا سکتا ہے جو عموماً شک میں ڈال دیتی ہیں۔
فرید کہتے ہیں کہ ’تین چیزیں ہیں جنھیں تلاش کرنا ضروری ہے: ریزولوشن ، معیار اور طوالت۔‘
طوالت دیکھنا سب سے آسان ہے۔ 'زیادہ تر اے آئی ویڈیوز بہت مختصر ہیں، یہاں تک کہ عام ویڈیوز سے بھی چھوٹی ہیں جو ہم ٹک ٹاک یا انسٹاگرام پر دیکھتے ہیں جو تقریبا 30سے 60سیکنڈ ہیں۔
مجھے جن ویڈیوز کی تصدیق کرنے کے لیے کہا جاتا ہے ان کی اکثریت چھ ، آٹھ یا 10 سیکنڈ لمبی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اے آئی ویڈیوز تیار کرنا مہنگا ہوتا ہے، لہٰذا زیادہ تر ٹولز مختصر کلپس بناتے ہیں۔
اس کے علاوہ ویڈیو جتنی لمبی ہوگی اے آئی کی گڑبڑ کا امکان اتنا ہی زیادہ ہے۔
آپ ایک سے زیادہ اے آئی ویڈیوز کو ایک ساتھ جوڑ سکتے ہیں لیکن آپ کو ہر آٹھ سیکنڈ یا اس سے زیادہ میں کٹ نظر آئے گا۔
دوسرے دو عوامل ریزولوشن اور معیار، ایک دوسرے سے وابستہ ہیں لیکن مختلف ہیں۔
ریزولوشن سے مراد کسی تصویر میں پکسلز کی تعداد یا سائز ہے جبکہ کمپریشن ایک ایسا عمل ہے جو تفصیل کو نکال کر ویڈیو فائل کے سائز کو کم کرتا ہے۔ اس میں اکثر بلاک والے پیٹرن اور چیزوں کے کنارے دھندلے ہو جاتے ہیں۔
فرید کا کہنا ہے کہ ’اگر میں لوگوں کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہوں تو میں کیا کروں؟ میں اپنی جعلی ویڈیو تیار کرتا ہوں، پھر میں ریزولوشن کو کم کرتا ہوں اتنا کہ آپ اسے دیکھ بھی سکیں اور پھر میں کمپریشن شامل کرتا ہوں جو کسی بھی ممکنہ باریکی کو مزید مبہم کرتی ہے۔ یہ ایک عام تکنیک ہے۔‘
پریشانی یہ ہے کہ جیسے ہی آپ یہ پڑھیں گے ٹیکنالوجی کے بڑے کاروبار اسے اور بھی حقیقت پسندانہ بنانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کریں گے۔
سٹام کہتے ہیں کہ ’میرے پاس کچھ بری خبر ہے۔ اگر آپ ویڈیوز میں دکھائی دینے والی نشانیاں تلاش کر پا رہے ہیں تو بہت جلد یہ نہیں ملیں گی۔‘
’مجھے توقع ہے کہ یہ نشانیاں دو سال کے اندر ویڈیوز سے ختم ہوجائیں گی۔ کم از کم وہ جو بہت واضح ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی اے آئی سے تیار کردہ تصاویر سے غائب ہو چکی ہیں۔ آپ اب اپنی آنکھوں پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتے۔‘
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سچائی کھو چکی ہے۔ جب فرید اور سٹام جیسے محققین مواد کے کسی ٹکڑے کی تصدیق کر رہے ہیں تو ان کے پاس ان کے اختیار میں زیادہ جدید تکنیک موجود ہے۔
سٹام کا کہنا ہے کہ ’جب آپ کوئی ویڈیو تیار کرتے ہیں یا اس میں ترمیم کرتے ہیں تو یہ بہت کم اعداد و شمار کے نشانات چھوڑ دیتا ہے جو ہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتی ہیں جیسے جرم کے مقام پر فنگر پرنٹس۔‘
’ہم ایسی تکنیکیں سامنے آتے ہوئے دیکھ رہے ہیں جو ان فنگر پرنٹس کو تلاش کرنے اور بے نقاب کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔‘
مثال کے طور پر بعض اوقات جعلی ویڈیو میں پکسلز کی تقسیم اصلی ویڈیو سے مختلف ہوسکتی ہے۔ لیکن اس طرح کے عوامل فول پروف نہیں ہیں۔
ٹیکنالوجی کمپنیاں ڈیجیٹل معلومات کی تصدیق کے لیے نئے معیار پر بھی کام کر رہی ہیں۔
بنیادی طور پر کیمرے اس وقت فائل میں معلومات شامل کر سکتے ہیں جب وہ تصویر بناتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرنے میں مدد مل سکے کہ یہ اصلی ہے۔
اسی ٹوکن کے ذریعے اے آئی ٹولز خود بخود اپنی ویڈیوز اور تصاویر میں اسی طرح کی تفصیلات شامل کر سکتے ہیں تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ وہ جعلی ہیں۔
سٹام اور دوسروں کا کہنا ہے کہ ان کوششوں سے مدد مل سکتی ہے۔
ڈیجیٹل ماہر مائیک کال فیلڈ کے مطابق اصل حل یہ ہے کہ ہم سب آن لائن جو کچھ دیکھتے ہیں اس کے بارے میں مختلف انداز میں سوچنا شروع کریں۔
کال فیلڈ کا کہنا ہے کہ ’بڑے پیمانے پر ویڈیو کسی حد تک متن کی طرح بننے جا رہی ہیں طویل، جہاں ماخذ سب سے زیادہ اہم ہوں گے اس کی خصوصیات نہیں اور ہم اس کے لیے بھی تیار ہو سکتے ہیں۔‘
متن کی نسبت ویڈیوز اور تصاویر مختلف ہوتی تھیں کیونکہ ان میں جعل سازی اور ردوبدل کرنا مشکل تھا۔ اب یہ ختم ہو گیا ہے۔
اب صرف ایک چیز جو اہم ہے وہ یہ ہے کہ مواد کہاں سے آیا، اسے کس نے پوسٹ کیا، سیاق و سباق کیا ہے اور آیا اس کی تصدیق کسی قابل اعتماد ذریعہ سے کی گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کب ہم سب اس حقیقت کو سمجھیں گے۔
سٹام کہتے ہیں ’مجھے لگتا ہے کہ یہ 21 ویں صدی کا سب سے بڑا انفارمیشن سکیورٹی چیلنج ہے لیکن یہ مسئلہ صرف چند سال پرانا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے کام کرنے والے لوگوں کی تعداد نسبتا کم ہے لیکن تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہمیں حل، تعلیم، ذہین پالیسیوں اور تکنیکی نقطہ نظر کے امتزاج کی ضرورت ہوگی جو سب مل کر کام کرتے ہیں۔ میں نا امید نہیں ہوں۔‘
تھامس جرمین بی بی سی کے سینئر ٹیکنالوجی صحافی ہیں۔ انھوں نے ایک دہائی تک اے آئی AI ، رازداری اور انٹرنیٹ کلچر کا احاطہ کیا ہے۔