کراچی میں انتظامیہ کی جانب سے ہوٹلوں کی بندش کے خلاف آل سندھ ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ گرینڈ ایسوسی ایشن کے تحت کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور دھرنا دیا گیا۔
کراچی پریس کلب میں آل سندھ ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ گرینڈ ایسوسی ایشن کے رہنما حاجی نور الحق نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہماری یونین غیر سیاسی، غیر فرقہ وارانہ ہے، ہم بلا امتیاز ہوٹل انڈسٹری سے وابستہ افراد کی خدمت کرتے ہیں، ہمارے شعبے نے روزگار کا ذریعہ فراہم کیا ہے۔ کراچی میں لوگ اپنے دوستوں کو ہوٹل پر بلا کر ان کی تواضع کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی روز سے ہوٹلوں کو ٹارگٹ کرکے انہیں سیل کیا جارہا ہے، ہم نے ہدایت کردی ہے کہ کرسیاں اور میزیں باہر نہ رکھی جائیں، پھر بھی اسسٹنٹ کمشنر صاحبان ہمارا سامان ضبط کرکے ہوٹلوں کو سیل کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سے مطالبہ ہے کہ تمام سیل کیے گئے ہوٹل کھولے جائیں، ناروا سلوک فوری طور پر بند کیا جائے، انہوں نے سوال کیا کہ بتایا جائے انکروچمنٹ اس کراچی میں کہاں نہیں ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں، ہمارے ساتھ ظالمانہ رویہ بند کیا جائے،
سندھ کے صدر جعفر شاہ آغا نے کہا کہ آج تک ہم نے کوئی احتجاج نہیں کیا، ہمارے لوگوں کو بے روزگار کیا جارہا ہے، مطالبات منظور نہ ہوئے تو ہم پورے ملک میں ہوٹل بند کرکے سڑکوں پر بیٹھ جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے 400 ہوٹل اب تک سیل کردیے گئے ہیں، ہر ہوٹل میں آٹھ سے دس لوگ ملازم ہوتے ہیں، ہر ڈی سی آفس کے باہر بھی انکروچمنٹ ہے صرف ہمارے ہوٹل پر انکروچمنٹ نہیں، ہمارا کاروبار چائے پراٹھا بیچنا ہے ہم جرائم پیشہ نہیں ہیں، محلے کے لوگ بیٹھ کر چائے پی کر چلے جاتے ہیں، کمشنر اور چیف سیکریٹری سے کہیں گے کہ غریبوں کو تنگ نہ کیا جائے۔
جعفر شاہ کا کہنا تھا کہ جہاں خرابی ہے وہاں ٹھیک نہیں کیا جارہا، ہوٹل پر تین تین موبائلوں کو بھیج کر بند کرایا جارہا ہے، شہر میں جہاں نشہ بیچا جارہا ہے وہاں پولیس بھیجیں، شراب خانے بھی بند کیے جائیں،
انہوں نے کہا کہ ایس او پی بنا کر ہم سے بات کریں، ہم نے کبھی بھی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی بات نہیں کی، صرف چائے کے ہوٹلوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، ہمارے 13 ہزار ہوٹل ہیں، اگر ہم نے دھرنا دیا تو آپ حساب لگائیں کہ ہر ہوٹل کے دس آدمی اگر دھرنے پر بیٹھ گئے تو کیا حال ہوگا؟