یونیورسٹی کالج لندن ہسپتال کے شعبہ امراض نسواں اور تولیدی ادویات کے ماہر ڈاکٹر ڈیمیٹریوس ماوریلوس نے بی بی سی کو بتایا کہ 1978 میں جب سے آئی وی ایف شروع ہوا ہے، دنیا بھر میں اس کے ذریعے ایک کروڑ سے زائد بچے پیدا ہو چکے ہیں۔
ہادیہ اس وقت ہادیہ کی عمر 12 سال تھی۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ صوفے پر بیٹھی فلم دیکھ رہی تھیں کہ اچانک ان کی ماں نے کہا کہ اگر میں تمہیں بتاؤں کہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے تو کیا ہو گا؟ یہیں سے اس گفتگو کا آغاز ہوا جس نے ہادیہ کی زندگی بدل دی۔
ہادیہ کو سب سے پہلے بتایا گیا تھا کہ وہ ان وٹرو فرٹیلائزیشن (آئی وی ایف) کے ذریعے پیدا ہوئی تھیں، لیکن اس عمل کے دوران ایک غلطی ہوئی تھی۔
ہادیہ کہتی ہیں ’مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ یہ ایک بہت ہی عجیب اور حیران کن کہانی ہے۔ لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال آیا کہ میں نے پہلے کبھی ایسا کیوں نہیں سوچا؟ میں ایک بچی تھی اس لیے شاید میں نے اس بارے میں سوچا نہیں تھا۔‘
ہادیہ کہتی ہیں ’وہ لمحہ میرے لیے ایک حیرت انگیز انکشاف تھا‘۔
کینیڈا سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ ماہر آثار قدیمہ ہادیہ یاد کرتی ہیں ’یہ واضح ہو گیا کہ کچھ غلط ہوا تھا، لیکن میں نے کبھی اس کے بارے میں نہیں سوچا۔ مجھے بائیولوجی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اس لیے میں نے صرف یہ فرض کیا کہ چونکہ میری ماں سفید فام تھی، اسی لیے میں بھی سفید فام تھی۔‘
’میں گھانا کے ایک خاندان کا حصہ بن گئی لیکن یہ سب کچھ انجانے میں ہوا۔‘
یونیورسٹی کالج لندن ہسپتال کے شعبہ امراض نسواں اور تولیدی ادویات کے ماہر ڈاکٹر ڈیمیٹریوس ماوریلوس نے بی بی سی کو بتایا کہ 1978 میں جب سے آئی وی ایف شروع ہوا ہے، دنیا بھر میں اس کے ذریعے ایک کروڑ سے زائد بچے پیدا ہو چکے ہیں۔
ایسی غلطیاں شاذ و نادر ہی ہوتی ہیں، لیکن آئی وی ایف کے ابتدائی دنوں میں، جب قواعد و ضوابط اور نگرانی کا فقدان تھا، ایسے معاملات کافی عام تھے۔
’میرا بچپن جھوٹ نہیں تھا‘
ہادیہ کہتی ہیں 'دوسرے بچے اکثر میرے بارے میں تبصرے کرتے ہیں، جیسےوہ کہتے 'آپ کو سیاہ فام ہونا چاہیے تھا' یا افریقی ہونے کی وجہ سے میرا مذاق اڑایا جاتا۔کینیڈا کے مشرقی ساحل پر واقع پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پرورش پانے والی ہادیہ کہتی ہیں کہ ان کا خاندان اس قصبے کے دوسرے لوگوں سے تھوڑا مختلف لگتا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہائی سکول میں انھیں کچھ نسلی تبصرے اور طعنے سننے پڑے، جو ان کے لیے بہت مشکل وقت تھا۔
ہادیہ کہتی ہیں ’دوسرے بچے اکثر میرے بارے میں تبصرے کرتے ہیں، جیسےوہ کہتے ’آپ کو سیاہ فام ہونا چاہیے تھا‘ یا افریقی ہونے کی وجہ سے میرا مذاق اڑایا جاتا۔
ان کا کہنا ہے کہ انھیں جس نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا وہ اتنا شدید نہیں تھا جتنا کہ ان کے چھوٹے بہن بھائیوں کوسامنا کرنا پڑا (آئی وی ایف کے ذریعے ہادیہ کو جنم دینے کے بعد ان کے والدین نے قدرتی طور پر مزید چار بچے پیدا کیے)۔
’ہم ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتے تھے جہاں مچھلی پکڑنا بنیادی پیشہ تھا، اس لیے میرے بہن بھائیوں کو براہ راست نسلی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا، چاہے وہ مجھ سے تعلق رکھتے ہوں یا نہیں۔‘
جب ہادیہ کو اپنی پیدائش کے بارے میں چونکا دینے والی حقیقت کا علم ہوا تو ان کے اپنے والد کے ساتھ تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا۔
اس سے ان کی زندگی کے بارے میں صرف ایک سچائی سامنے آئی۔
وہ کہتی ہیں ’اس سے یقینی طور پر میرے ذہن میں ایک سوال حل ہو گیا لیکن مجھے اب تک وہ اطمینان نہیں ملا جس کی میں تلاش کر رہی ہوں۔‘
ہادیہ کا مزید کہنا ہے کہ وہ ابھی تک یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ یہ غلطی دراصل کیسے ہوئی۔
وہ کہتی ہیں ’جنھوں نے مجھے پالا وہ ہمیشہ سے میرے والد رہے ہیں، وہ میری پیدائش کے دن وہاں موجود تھے اور اس سے پہلے کے مراحل میں بھی موجود تھے۔ اور وہ آج بھی میرے ساتھ ہیں، اس لیے میں نے ان کے بارے میں کبھی مختلف محسوس نہیں کیا۔‘
وہ کہتی ہیں ’میرا بچپن جھوٹ نہیں تھا، میں ہمیشہ سے اس خاندان کا حصہ رہی ہوں۔ کسی حد تک میں خود کو گھانا کی نسل سے جوڑتی ہوں، کیونکہ میں ویسا ہی کھانا کھا کر بڑی ہوئی ہوں، میں زبان کو سمجھتی ہوں۔ میں یہ زبان بول نہیں سکتی لیکن کبھی کبھی سن کر سمجھ جاتی ہوں۔‘
ہادیہ کا کہنا ہے کہ ان کے والدین 1990 کی دہائی میں ٹورنٹو میں ملے تھے اور ایک سال کے اندر ان کی شادی ہو گئی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے والدین 1990 کی دہائی میں ٹورنٹو میں ملے تھے اور ایک سال کے اندر ان کی شادی ہو گئی تھی۔
’میرے والد گھانا کے ساحلی شہر تیما میں پیدا ہوئے اور جب وہ 20 سال کے تھے تو وہ کینیڈا چلے گئے، جہاں وہ ٹورنٹو میں رہتے تھے۔ وہیں پر ان کی میری والدہ سے ملاقات ہوئی جو کہ پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ کے شمالی رسٹیکو سے تعلق رکھتی تھی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ حاملہ ہونے میں کئی سالوں کی دشواری کے بعد انھوں نے ٹورنٹو فرٹیلیٹی اینڈ سٹرلٹی انسٹی ٹیوٹ سے آئی وی ایف کروانے کا فیصلہ کیا۔ یہ کلینک ڈاکٹر فیروز خامسی چلاتے تھے۔
آئی وی ایف ایک ایسا عمل ہے جس میں لیبارٹری میں خاتون کے بیضے کو مرد کے سپرم کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ایمبریو کو عورت کے رحم میں رکھا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’میرے والدین نے تقریباً سات سال تک کوشش کی اور بالآخر وہ کامیاب ہوئے۔ یہ ایک بہت طویل اور مشکل عمل تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کے والدین نے کلینک کو واضح ہدایات دی تھیں کہ وہ بلیک سپرم ڈونر چاہتے ہیں تاکہ بچے میں دونوں والدین کا عکس ہو۔
’جب میں پیدا ہوئی تو میرے والدین میری رنگت دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جب انھوں نے آئی وی ایف کلینک سے رابطہ کیا تو انھیں کہا گیا کہ ایک سال انتظار کریں، رنگت بدل جائے گی۔‘
لیکن ایک سال بعد ان کی والدہ نے کلینک سے معاملے کی تحقیقات کرنے کو کہا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ سپرم ڈونر کاکیشین تھا اور اسے سرخ بالوں والا مرد بتایا گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں ’جب ایک سال گزر گیا تو کلینک نے اعتراف کیا کہ ڈونر سرنج کے نمبروں میں غلطی تھی۔۔۔ اسی لیے ایسا ہوا۔‘
بعد میں انھوں نے دریافت کیا کہ ان کے بائیولوجیکل والد کے بال بھورے بال تھے۔ اور جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا ان کے بال سرخ نہیں تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب ان کے والدین ڈاکٹر خامسی سے ملے تو انھوں نے ان سے کہا کہ جو کچھ آپ کو مل چکا ہے اس پر شکر کریں۔۔۔ آپ کا ایک خوبصورت خاندان ہے اور آپ کو وہ مل گیا جو آپ چاہتے تھے، اگر آپ چاہتے ہیں تو مجھے عدالت میں لے جائیں۔۔ اور اسی چیز کے لیے انشورنس موجود ہے۔
ہادیہ اپنے والد کے ساتھان کا کہنا ہے کہ 2003 میں ان کے والدین نے کلینک کے خلاف مقدمہ درج کرایا اور بالآخر معاملہ نامعلوم رقم کے تصفیے سے طے پا گیا۔
وہ کہتی ہیں ’یہ تھوڑا مضحکہ خیز تھا کیونکہ عدالت نے کہا کہ یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ میں ایک کاکیشین لڑکی ہوں اور یہ کہ ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت ہوگی۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ بالکل واضح تھا۔ یہ تقریباً میڈیکل گیس لائٹنگ کی طرح تھا جسے قانونی عمل کے دوران بار بار محسوس کیا جاتا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کے کیس سے کلینک پر کوئی براہ راست اثر نہیں ہوا اور وہ چلتا رہا۔
ڈاکٹر خامسی نے مارچ 2011 میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف اونٹاریو سے استعفیٰ دے دیا۔
سی پی ایس او نے ایک بیان میں کہا کہ استعفیٰ ایک معاہدے کے بعد ہوا جس کے تحت میڈیکل ریگولیٹر نے 26 مریضوں کی دیکھ بھال، علاج اور ریکارڈ رکھنے سے متعلق خدشات کی سماعت منسوخ کر دی۔
انھوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ وہ اونٹاریو یا کینیڈا کے کسی دوسرے صوبے میں بطور معالج رجسٹریشن کے لیے دوبارہ درخواست نہیں دیں گے۔
پندرہ ڈونر بہن بھائی
2019 میں انھوں نے اپنے بائیولوجیکل والد کے خاندان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کروایا۔ تاہم اس وقت انھیں کوئی خبر نہیں ملی۔
لیکن پانچ سال بعد کسی نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ ان کا ڈی این اے ان سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس انکشاف کے ذریعے انھیں معلوم ہوا کہ ان کے 12 سوتیلے بہن بھائی تھے۔
ان میں سے زیادہ تر 1994 اور 1998 کے درمیان ایک ہی ڈونر کے ذریعے پیدا ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ کافی حیران کن تھا جب مجھے پتہ چلا کہ میرے 12 بہن بھائی ہیں۔ اس کے بعد مجھے تین اور بہن بھائی بھی ملے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ ایسا احساس تھا جیسے آپ کسی طبی اعداد و شمار کی فہرست میں ہوں جس کا آپ نے کبھی حصہ بننے کی توقع نہیں کی تھی اور یہ جان کر کافی بوجھل سا لگا۔‘
وہ کہتی ہیں ہمیں پتہ چلا کہ شاید میں ہی اپنے بہن بھائیوں کے گروپ میں واحد نہیں ہوں جس کے کیس میں غلطی ہوئی ہے اور اس نے مزید سوالات کو جنم دیا اور مجھے مزید تحقیق کرنے پر مجبور کیا۔
انھوں نے کہا کہ یہ واضح ہو گیا کہ ہماری ماؤں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ان کے ڈونرز سے چھ یا آٹھ سے زیادہ بچے پیدا نہیں کریں گے۔
لیکن ڈونر سپرم کو کم از کم 15 آئی وی ایف میں استعمال کیا گیا تھا۔ یہ خبر ہر فرد کے لیے ایک صدمہ تھی، خاص طور پر ان بہن بھائیوں کے لیے جنھیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ وہ کسی ڈونر کے ذریعے پیدا ہوئے ہیں۔
ہادیہ بتاتی ہیں کہ ان کے بائیولوجیکل والد کی قدرتی طور پر پیدا ہونے والی بیٹیوں نے انھیں بتایا کہ ڈونر نے 1994 میں میڈیکل ریسرچ کے لیے یونیورسٹی آف کیلگری کو سپرم عطیہ کیا تھا لیکن کسی طرح وہ سپرم اس کلینک تک پہنچ گیا۔
کینیڈا میں عطیات کی تعداد یا ایک عطیہ دہندہ سے بچوں کی تعداد کے بارے میں کوئی قانونی حد نہیں ہے، لیکن کچھ کلینکس اپنی پیشہ ورانہ صوابدید کی بنیاد پر اپنی حدود طے کرتے ہیں۔
’دونوں ثقافتوں سے ملنا خوش قسمتی‘
ہادیہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیںاس سب کے بعد ان کے زیادہ تر ڈونر بہن بھائی ایک دوسرے کو جاننے اور رابطے میں رہنے کے لیے گروپ چیٹ میں شامل ہوئے۔
انھوں نے کہا ’مشرقی ساحل پر میرا ایک بائیولوجیکل بھائی ہے، ہم ایک دوسرے سے صرف دو بلاکس کے فاصلے پر رہتے تھے لیکن ہمیں اس کا علم نہیں تھا۔‘
ادیہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ وہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئی ہیں جس کی دو مختلف ثقافتیں ہیں۔
’میرے والد کینیڈا میں پہلی نسل کے تارکین وطن تھے، انھیں اپنی گھانا کی ثقافت پر بہت فخر تھا۔ اس لیے میں خود کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھے دوہری ثقافتی پہچان کا تجربہ حاصل ہوا، جہاں میں نے پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ پر گھانین اور فرانسیسی اکیڈین دونوں ثقافتوں کا تجربہ کیا۔‘