انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں لال قلعہ کے میٹرو سٹیشن پر پیر کی رات ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ دہلی پولیس کے ترجمان سنجے تیاگی کا کہنا ہے کہ اس دھماکے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور 20 زحمی ہوئے ہیں۔ ابتدائی طور پر دھماکے کی نوعیت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا اور وجہ جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔
آج صبح جائے وقوعہ سے آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں تباہ ہونے والی کئی گاڑیاں ابھی بھی لال قلعہ کے قریب سڑک پر موجود ہیں’لاشوں کے پاس موجود گاڑیوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ میں نے اور دیگر ایمبولینس کے ڈرائیوروں نے لاشیں جمع کیں اور انھیں ہسپتال لے گئے۔‘
ایمبولینس ڈرائیور محمد اسد نے انڈیا کے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی (پریس ٹرسٹ آف انڈیا) سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو انھیں ابتدا میں کم از کم چار لاشیں نظر آئیں۔
یاد رہے کہ پیر کی شام انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں لال قلعہ کے میٹرو سٹیشن کے باہر ایک زور دار دھماکے کے نتیجے میں کم از کم آٹھ افراد کی ہلاکت اور 20 افراد کے زحمی ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔
یہ دھماکہ شام تقریباً سات بجے کے لگ بھگ ہوا اور ابتدائی طور پر دھماکے کی نوعیت کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔ انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ تفتیش کا عمل جاری ہے اور نتائج سامنے آنے پر ان کی تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔
ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ دھماکہ میٹرو سٹیشن کے باہر موجود ایک کار میں ہوا تھا جس کے باعث نزدیک کھڑی کئی گاڑیوں میں بھی آگ لگ گئی تھی۔
دہلی پولیس کے کمشنر ستیش گولچہ نے نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ ’یہ دھماکہ کم رفتار سے چلنے والی ایک کار میں ہوا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’جب دھماکہ ہوا تو اس وقت کار میں مسافر موجود تھے جبکہ دھماکے سے دوسری کاروں میں بھی آگ لگ گئی۔‘
دہلی پولیس کے ترجمان سنجے تیاگی کے مطابق دھماکہ لال قلعہ کے گنجان آباد علاقے میں ہوا تھا۔
انڈیا کے سرکاری خبر رساں اداروں کے مطابق اس دھماکے بعد دارالحکومت دلی کے ساتھ ساتھ ممبئی میں بھی سکیورٹی کے حوالے سے ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے دہلی دھماکے میں جان سے جانے والے افراد کے اہلخانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب کانگرس رہنما راہل گاندھی نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ ’دہلی کے لال قلعہ میٹرو سٹیشن کے قریب کار دھماکے کی خبر انتہائی تکلیف دہ اور تشویشناک ہے۔ اس المناک حادثے میں کئی معصوم جانوں کے ضیاع کی خبر افسوسناک ہے۔‘
’دھماکہ بہت زوردار تھا، ایسا میں نے پہلے کبھی نہیں سنا‘
لال قلعہ دھماکے کے بعد ہسپتال کے باہر پہنچنے والے لواحقین غمزدہ ہیںدلی فائر سروس نے بی بی سی ہندی کو تصدیق کی کہ دھماکے سے متعلق ابتدائی کال شام چھ بج کر 55 منٹ پر موصول ہوئی تھی۔
دلی فائر سروس نے کہا کہ انھیں ایک کال موصول ہوئی جس میں بتایا گیا کہ لال قلعہ میٹرو سٹیشن کے گیٹ نمبر ایک کے قریب ایک کار میں دھماکہ ہوا ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق دھماکے سے آس پاس کی عمارتیں لرز گئیں۔
دھماکے کے بعد لال قلعہ کے سامنے موجود چاندنی چوک کے بازار میں افراتفری مچ گئی اور دکانیں بند کر دی گئیں۔
ولی الرحمان نامی ایک مقامی دکاندار نے خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ کو بتایا کہ ’جب دھماکہ ہوا تو میں دکان میں بیٹھا ہوا تھا۔ دھماکہ بہت زوردار تھا، ایسا میں نے پہلے کبھی نہیں سنا۔‘
انھوں نے مزید بتایا کہ ’دھماکے کی آواز سُن کر میں افراتفری میں تین بار گِرا۔ اس کے بعد آس پاس کے سبھی لوگ بھاگنے لگے۔‘
عینی شاہد راجدھر پانڈے نے خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا کہ ’ہم نے آگ کے شعلے دیکھے۔ میں نے اسے اپنی چھت سے دیکھا۔ اس کے بعد میں یہ دیکھنے کے لیے نیچے آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ زوردار آواز سے عمارت کی کھڑکیاں لرز اُٹھیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میرا گھر نزدیک واقع گرودوارے کے قریب ہے۔‘
اس دھماکے کے زخمیوں کو جائے وقوعہ سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر موجود لوک نائیک ہسپتال لے جایا گیا۔
بی بی سی کی ٹیم آج صبح ہسپتال پہنچی تو وہاں افراتفری کے مناظر تھے۔ ہسپتال میں کسی بھی میڈیا کے نمائندوں کو داخلے کی اجازت نہیں جبکہ زخمیوں کے اہلخانہ کو بھی اپنے پیاروں سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔
پون شرما نامی ایک شخص نے ہسپتال کے باہر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اُن کے بہنوئی بھاونی شنکر لال قلعے کے علاقے میں ٹیکسی چلاتے ہیں اور اس وقت ایمرجنسی وارڈ میں موجود ہیں لیکن انھیں ان سے ملاقات کی اجازت نہیں مل رہی۔
پون شرما نے بتایا کہ دھماکے کے تھوڑی دیر بعد ہی انھیں اپنے بہنوئی کی جانب سے ایک ویڈیو کال موصول ہوئی تھی۔
’اس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ اُن کے چہرے پر چوٹیں تھی اور ان کا ہاتھ بھی زخمی تھا۔ وہ ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں پا رہے تھے۔‘
اب تک کی تفتیش میں کیا معلومات سامنے آئی ہیں؟
تفتیش کار اس کار کی نقل و حرکت کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں دھماکہ ہوا۔
انڈین میڈیا کے مطابق یہ گاڑی دھماکے سے کئی گھنٹے پہلے بھی لال قلعہ کے علاقے میں موجود تھی۔
یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ میٹرو سٹیشن کے قریب جنکشن کی طرف بڑھنے سے قبل سرخ رنگ کی ہنڈائی آئی 20 ایک قریبی کار پارکنگ میں موجود تھی تاہم پولیس نے اس حوالے سے اب تک کوئی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی بی بی سی ان دعوووں کی آزادانہ طور پر تصدیق کر سکا ہے۔
انڈین وزیر داخلہ امت شاہ نے اس واقعہ کے بعد جاری بیان میں کہا تھا کہ ’پیر کی شام تقریباً 7 بجے دہلی میں لال قلعہ کے قریب سبھاش مارگ ٹریفک سگنل پر ایک آئی 20 ہنڈائی کار میں دھماکہ ہوا۔‘
دہلی پولیس کے کمشنر ستیش گولچہ نے میڈیا کو بتایا کہ 6 بج کر 52 منٹ پر لال قلعہ میٹرو سٹیشن کے قریب ٹریفک سگنل کی سرخ لائٹ پر ایک سست رفتار گاڑی رکی، جس میں دھماکہ ہوا اور اس وقت گاڑی میں مسافر موجود تھے۔
انڈین خبر رسال ادارے اے این ائی کی جانب سے اس صبح جو فوٹیج شائع کی گئی ہے، اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تفتیش کار ابھی بھی جائے وقوعہ پرموجود ہیں۔
کئی سکیورٹی ایجنسیاں اس مہلک دھماکے کی تحقیقات میں مصروف ہیں۔
آج صبح جائے وقوعہ سے آنے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں تباہ ہونے والی کئی گاڑیاں ابھی بھی لال قلعہ کے قریب سڑک پر موجود ہیں۔
دھماکے کے نتیجے میں بھڑکنے والی آگ سے ہونے والے نقصان سے اس کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔
دہلی پولیس کے ایک ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ کل رات کے دھماکے کی تحقیقات دھماکہ خیز مواد کے قانون کے تحت کی جا رہی ہیں۔
دہلی پولیس کے ترجمان راجا بنتھیا نے انڈیا کے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا کہ اس واقعے کی تحقیقات تعزیرات ہند کی ’متعلقہ دفعات‘ کے تحت کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ انڈین حکام نے ابھی تک باضابطہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ آیا یہ دھماکہ دہشتگردی کا نتیجہ تھا یا نہیں اور یہ کہ انھوں نے کسی مشتبہ شخص کی شناخت کر لی یا نہیں۔
کئی سکیورٹی ایجنسیاں اس مہلک دھماکے کی جانچ میں مصروف ہیںسکیورٹی صورتحال کیا ہے؟
دھماکے کی تحقیقات کے حوالے سے منگل کی صبح انڈین وزارت داخلہ میں سینیئر سیکورٹی حکام کی ملاقات متوقع ہے۔
اعلیٰ سطحی میٹنگ کی تصدیق کل رات وفاقی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کی تھی۔
انڈیا کے وفاقی وزیر داخلہ امیت شاہ نے گذشتہ رات دہلی کے ایل این جے پی ہسپتال کا دورہ بھی کیا تھا جہاں زخمیوں کا علاج کیا جا رہا ہے۔
انڈیا کی مرکزی پولیس فورس نے کہا ہے کہ دہلی بھر میں کئی اہم مقامات کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔
سنٹرل انڈسٹریل سکیورٹی فورس (سی آئی ایس ایف) نے ایکس پر ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ’دہلی کے اندرا گاندھی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے ساتھ ساتھ دہلی میٹرو، لال قلعہ اور سرکاری عمارتیں اب ہائی الرٹ پر ہیں۔‘
دہلی میں ہونے والے دھماکے کے بعد ایک سینیئر پولیس عہدیدار نے بتایا کہ شمالی انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں بھی ’حساس مذہبی مقامات، حساس اضلاع اور سرحدی علاقوں‘ پر سکیورٹی بڑھا دی گئی۔‘
اتر پردیش میں تاج محل جیسے مشہور مقامات ہیں اور یہ ایک گنجان آباد ریاست ہے۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل امیتابھ یش نے میڈیا کو بتایا کہ پورے اتر پردیش میں تمام سکیورٹی ایجنسیوں اور ضلعی پولیس کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ریاست مہاراشٹر سمیت دیگر علاقوں میں بھی ہائی الرٹ جاری ہیں، جس میں انڈیا کا مالیاتی دارالحکومت ممبئی بھی شامل ہے۔
یہ دھماکہ پیر کی شام تقریباً سات بجے ہوادھماکہ کہاں ہوا؟
یہ دھماکہ لال قلعہ کے قریب میٹرو سٹیشن کے داخلی دروازے کے قریب ہوا۔ لال قلعہ کا شمار دہلی کے تاریخی مقامات میں ہوتا ہے۔
دریائے جمنا کے نزدیک واقعہ لال قلعہ مغلیہ سلطنت کے سنہری دور کی یادگار ہے اور اس کے آس پاس کے علاقے میں خاصا رش ہوتا ہے۔
اسے سترویں صدی میں مغل بادشاہ شاہجہان نے تعمیر کرایا تھا۔ ۔
قلعے کے دو دروازے ہیں جن میں سے ایک ’دلی‘ جبکہ دوسرا ’لاہوری دروازہ‘ کہلاتا ہے۔
جب یہ قلعہ تعمیر کیا گیا تھا اس وقت دریائے جمنا اس کی عقب کی دیواروں کو چھوکر گزرتا تھا لیکن اب وہ کچھ فاصلے پر بہتا ہے۔