جس زمانے میں فیصل کپاڈیا کا گانا، چنی بھائی کپاڈیا نے سنا تھا اور ان سے بالی وڈ کا وعدہ کیا تھا، اسی زمانے میں ایک اور فیصل، بالی وڈ جا کر اپنی قسمت آزما رہا تھا۔

پاکستانی گلوکار فیصل کپاڈیا کی جانب سے ایک پوڈ کاسٹ میں انڈین اداکارہ ڈمپل کپاڈیا سے رشتہ داری کے انکشاف نے دونوں ملکوں میں دلچسپی پیدا کی۔
اس پوڈ کاسٹ کے دوران فیصل کپاڈیا کا کہنا تھا کہ ’ڈمپل کپاڈیا کے والد چنی بھائی کپاڈیا میرے کزن تھے اور سنہ 1984 میں اُنھوں نے مجھے کراچی میں ایک رشتہ دار کی شادی میں گانا گاتے سنا تھا۔
’اسی کے بعد اُنھوں نے میری حوصلہ افزائی کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اُنھیں بالی وڈ میں متعارف کرائیں گے۔‘
فیصل کپاڈیا کے مطابق زندگی نے چنی بھائی سے وفا نہ کی اور وہ جلد وفات پا گئے۔ تاہمسابقہ بینڈ سٹرنگز، جس میں فیصل کپاڈیا کے ساتھ بلال مقصود بھی شامل تھے، نے 22 برس بعد سنجے دت اور جان ابراہم کی فلم ’زندہ‘ سے خود ہی بالی وڈ میں انٹری ڈالی۔
اس سے یہ سوال دماغ میں آتا ہے کہکیا اور بھی ایسی شوبز شخصیات ہیں جن کے ’سٹرنگز‘ یعنی تار انڈیا میں فنکاروں سے جڑے ہیں؟
تقسیمِ ہند نے تو بہت سارے خاندانوں کو الگ الگ کردیا اور کئی مثالیں ایسی ہیں جس میں بھائی، بہن اور والدین ہی سرحد پر لکیر کھنچنے سے دور ہو گئے۔ مگر کچھ ایسی مثالیں بھی ہیں جس میں شوبز سے جڑی بہت سی شخصیات سرحد کے اُس پار ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے رشتے دار ہیں۔
ڈمپل کباڈیا کی بیٹی ٹوئنکل کھنہ نے بھی بالی وڈ میں کام کیا جس زمانے میں فیصل کپاڈیا کا گانا، چنی بھائی کپاڈیا نے سنا تھا اور ان سے بالی وڈ کا وعدہ کیا تھا، اسی زمانے میں ایک اور فیصل، بالی وڈ جا کر اپنی قسمت آزما رہا تھا۔ وہ وہاں اپنے چچا کے ہاں قیام پذیر تھا اور پاکستان میں ان کا شمار ابھرتے ہوئے فنکاروں میں ہوتا تھا۔
آپ پہچان تو گئے ہوں گے۔ یہاں بات ہو رہی ہے اداکار فیصل کی جو 1980 کی فلم ’نہیں ابھی نہیں‘ سے فلمی دنیا میں وارد ہوئے تھے۔
ہدایت کار نذرالاسلام کی دریافت، اداکار فیصل نے 80 کی دہائی میں کافی ملکوں میں لیڈ رول پلے کیا اور اس کے بعد اُنھوں نے انڈیا میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اُنھوں نے اپنے سگے چچا اداکاررحمانکے ہاں ممبئی میں قیام کیا۔
رحمان ان چند اداکاروں میں سے تھے جنھوں نے 40 کی دہائی سے 70 کی دہائی تک فلموں میں ہر طرح کے رول کیے۔ ان کے چھوٹے بھائی مسعود الرحمان، فیصل کے والد پاکستانی فلموں کے مشہور سینیما فوٹو گرافر تھے۔
رحمان نے انڈیا میں ’پیاسا‘، ’چودہویں کا چاند‘، ’وقت‘ اور ’دل دیا درد لیا‘ جیسی فلموں میں اداکاری کر کے اپنا نام بنایا۔
لیکن ان کی شہرت بھی فیصل کے کام نہ آئی اس زمانے میں جتیندر، کمار گورو اور متھن جیسے ناچنے والے ادکاروں نے کسی کے لیے جگہ نہیں چھوڑنی تھی۔ اس لیے فیصل کی تو وہاں دال نہیں گلی اور وہ پھر لاہور آ گئے۔
عامر خان اور جوہی چاولا کی پاکستان میں رشتے داریاں
بالی وڈ اداکار عامر خان اور جوہی چاولا کا بھی پاکستان سے خاص تعلق ہے۔
عامر خان کی والدہ زینت حسین کا تعلق پاکستان فلم انڈسٹری کو محمد علی، زیبا، دیبا، طلعت حسین اور نثار بزمی جیسے نامور فنکار دینے والے ہدایت کار فلمساز فضل احمد کریم فضلی کے خاندان سے تھا۔
سول سروس سے ریٹائر ہونے کے بعد فضل کریم فضلی نے 1963 میں فلم ’چراغ جلتا رہا‘ اور اس کے دو سال بعد فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ بنائی۔
یہ تنیوں بھائی فلمی دنیا میں فضلی برادرز کے نام سے جانے جاتے تھے۔ فضل کریم فضلی کے چھوٹے بھائی سبطین پاکستان کی سپر ہٹ فلم ’دوپٹہ‘ بنائی تھی جبکہ نوجوانی میں انتقال کرنے والے حسنین نے متحدہ ہندوستان میں مسلم سوشل فلمز کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ ’قیدی،‘ ’معصوم‘ اور ’دل‘ جیسی فلموں کے تخلیق کار تھے۔
عامر خان کی والدہ سے ان کے تعلق کے حوالے سے بی بی سی اُردو نے فضل کریم فضلی کے بیٹے اور فلم پروڈیوسر رحمتی فضلی سے بات کی۔
رحمتی کے مطابق عامر خان کی والدہ ’زینت آپا‘ ان کے ماموں کی بیٹی تھیں اور عامر کے والد طاہر حسین سے شادی سے قبل ان لوگوں کے ساتھہی باتھ آئی لینڈ کراچی کے گھر میں رہتی تھیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان بننے کے بعد ہم لوگ راولپنڈی میں رہنے لگے تھے جبکہ زینت آپا کے والد بھی اپنے خاندان کے ساتھ وہیں آ گئے تھے۔ جب تک ان کی شادی نہیں ہوئی، وہ ہمارے ساتھ کراچی میں ہی رہیں۔ ایک مرتبہ میرے انڈیا کے دورے پر کسی نے مجھے ان کا ’کزن‘ کہہ کر متعارف کرایا تو زینت آپا نے اسے جھڑک دیا اور کہا کہ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔ ظاہر ہے عامر خان جب جب کراچی آئے ان کا قیام اپنے ماموں کے گھر ہی رہا۔
سبطین فضلی کی پوتی عائشہ فضلی پاکستانی گلوکار علی ظفر کی اہلیہ ہیں اور بعض مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ علی ظفر کا عامر خان کے بھانجے عمران خان کے ساتھ فلم ’میرے برادر کی دلہن‘ میں کام کرنا محض اتفاق نہیں تھا۔
یہ لوگ ایک دوسرے کو دور سے جانتے تھے۔ اس فلم میں علی ظفر کے گانے ’سر گھومے چکر کھائے‘ کی طرح ان گنجلک رشتے داریوں پر آپ کا سر بھی چکرا رہا ہو گا، لیکن ابھی آگے مزید چکر آنے والے ہیں۔
فضل کریم فضلی کی فلمیں ’چراغ جلتا رہا‘،’ایسا بھی ہوتا ہے‘ اور ’وقت کی پکار‘ مشہور تقسیم کار جے سی آنند نے ریلیز کی تھیں۔
ان کی کمپنی ایور ریڈی تقریباً 80 برس سے پاکستانی اور بین الاقوامی فلمیں ریلیز کر رہی ہے جس کے کرتا دھرتا ستیش آنند ہیں۔ ستیش آنند صرف جے سی آنند کے بیٹے ہی نہیں بلکہ جوہا چاولا کے کزن یعنی خالہ زاد بھائی بھی ہیں۔
جے سی آنند کی بیوی اور جوہی چاولا کی والدہ سگی بہنیں تھیں اور اگر کبھی بھی کراچی میں کوئی ’جوہی چاولا‘ جیسا گھومتا نظر آئے تو یہ مت کہہ دیجیے گا کہ آپ کی شکل جوہی چاولا سے ملتی ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ جوہی چاولا خود ہوں، کیونکہ وہ کتنی بار پاکستان آئی ہیں، شاید ان کو بھی یاد نہیں۔
کویتا جیسی دکھنے والی ادکارہ جیا خان کا پاکستان کنکشن
عامر خان کی فلم ’گجنی‘ ان اولین انڈین فلموں میں سے تھی جس کی نمائش پاکستان میں ہوئی تھی۔ اس فلم میں آسن اور عامر خان کے علاوہ اداکارہ جیا خان نے سب کے دل موہ لیے تھے۔
ویسے تو جیا خان، امیتابھ بچن کے ساتھ فلم ’نشبد‘ میں متنازعبوسے کی وجہ سے جانی جاتی تھیں، مگر ’گجنی‘ میں ان کے کردار میں پاکستانی اداکارہ کویتا کی جھلک نظر آئی۔
کچھ لوگوں نے یہ تک کہا کہ وہ کویتا کی بیٹی ہیں، مگر یہ بات کچھ کچھ ٹھیک تھی۔ ستر اور اسی کی دہائی میں پاکستان میں نوجوانوں کو اپنی اداؤں اور اداکاری سے دنگ کرنے والی فلمسٹار کویتا کے لیے جیا خان بیٹی جیسی تھی، کیونکہ جیا کے والد علی رضوی خان، کویتا اور سنگیتا یعنی نسرین رضوی اور پروین رضوی کے سگے بھائی تھے۔
جیا خان پیدا سنہ 1988 میں نیو یارک میں ہوئی تھیں اور سنگیتا کویتا کی 1982 کی فلم ’تھوڑی سی بے وفائی‘ کی شوٹنگ بھی نیو یارک میں ہوئی، ظاہر ہے بھائی جو وہاں رہتے تھے۔
جیا خان نے سنہ 2013 میں ممبئی میں مبینہ طور پر خود کشی کر لی تھی۔
سید کمال کی نصیرالدین شاہ سے رشتے داری
پچاس کی دہائی میں پاکستان میں اکثر ’شومین‘ راج کپور کے دھوکے میں لوگ سید کمال کو پہچاننے لگے تھے۔
سید کمال، جو میرٹھ سے پاکستان آئے تھے، خود ایک قابل اداکار اور فلمساز تھے اور ہاں سید کمال کا بھی ایک پڑوس میں کنکشن ہے۔ جی نہیں ان کا راج کپور سے کوئی تعلق نہیں البتہ نصیر الدین شاہ سے بنتا ہے۔
آرٹ سے کمرشل فلمز تک کا کامیاب سفر کرنے والے گنے چنے اداکاروں میں سے ایک نصیر الدین شاہ کا شمار انڈیا کے لیجنڈری اداکاروں میں ہوتا ہے، جنھیں پدما بھوشن اور پدما شری جیسے اعزازت سے نوازا جا چکا ہے۔
سید کمال کی اہلیہ زرین کمال نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ نصیر الدین شاہ کمال کی خالہ کے بیٹے ہیں جو میرٹھ میں رہتی تھیں۔
نصیر الدین شاہ کے اداکار بننے کے بعد وہ اور کمال ایک مرتبہ ممبئی گئے تو ان کے گھر پر بھی جانا ہوا تھا۔ نوے کی دہائی میں پی ٹی وی پر نشر ہونے والے ’دی کمال شو‘ میں ایک مرتبہ سید کمال نے خود ہی بتایا تھا کہ اُنھوں نے معمولی شکل و صورت کے حامل نوجوان نصیر کو اداکاری سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا، مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔
طبلہ نواز اُستاد ذاکر حسین روحی بانو کے سوتیلے بھائی
یہ تو آپ میں سے کافی لوگ جانتے ہوں گے کہ انڈیا سے تعلق رکھنے والے مایہ ناز طبلہ نواز استاد ذاکر حسین اور پاکستان کی صفِ اول کی اداکارہ روحی بانو، سوتیلے بھائی بہن تھے۔
ذاکر حسین کے والد استاد اللہ رکھا خان نے زینت بیگم سے شادی کی تھی جن کےبطن سے روحی بانو نے کراچی میں جنم لیا۔
اس سے چند ماہ قبل، ان کی پہلی بیوی بوی بیگم، ذاکر حسین کو بمبئی میں جنم دے چکی تھیں۔
بقول معروف ڈرامہ رائٹر اصغر ندیم سید ’میں نے تو کئی مرتبہ ذاکر سے کہا تھا کہ آپ کی شکل روحی سے بہت ملتی ہے۔'
سنہ 1973 سے سنہ 1985 تک انڈین فلموں کے ذریعے دُنیا بھر میں اپنی اداکاری، رقص اور حسن سے سب کو متاثر کرنے والی انڈین اداکارہ رینا رائے بھی روحی بانو کی رشتہ دار ہیں۔
یہ اداکارہ سنہ 1978 میں پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ سیریز دیکھنے کراچی آئی تھی، اپنے رشتہ داروں سے ملی تھی اور فلم انڈسٹری میں ایک مقام رکھتی تھیں۔
اُنھوں نے انڈیا کے تمام صفِِ اول کے اداکاروں کے ساتھ کام کیا تھا البتہ کریئر کے عروج پر پاکستان کی ٹیم کے ایک خوبرو بیٹر محسن حسن خان سے شادی کر بیٹھیں۔
مشہور فلمی محقق متین محمود کے مطابق، رینا رائے اور برکھا رائے کی والدہ شردھا رائے، روحی بانو کی خالہ تھیں۔
صادق علی رینا رائے کے والد تھے اور رینا کا پیدائشی نام سائرہ علی تھا، والدین میں علیحدگی کے بعد نام، دھرم، کرم سب واپس ہوگئے اور سائرہ علی بن گئیں رینا رائے۔ فلمی کریئر کے بعد اُنھوں نے محسن خان کی بیوی بن کر بھی ایک اننگز شروع کی تھی جس میں وہ زیادہ کامیاب نہ رہیں۔
لوگ اکثر فلمی شاعر تسلیم فاضلی اور ندا فاضلی کو کزنز اور رئیس امروہوی اور کمال امروہوی کو بھائی کہتے تھے، جو کہ الٹا ہے۔
تسلیم فاضلی نے پاکستان کی فلموں میں سنہ 1966 سے اپنی وفات سنہ 1982 تک لاتعداد کامیاب گیت لکھے۔ ان کے مشہور گیت مہدی حسن، میڈم نور جہاں، احمد رشدی اور رونا لیلی نے گائے تھے۔
وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے اور ان کی وفات صرف 35 سال کی عمر میں ہو گئی تھی۔
ماضی کی مشہور اداکارہ نشو جو تسلیم فاضلی کے آخری چار سالوں کی شریکِ حیات رہیں۔
اُنھوں نے بی بی سی اردو سے گفتگو میں بتایا کہ تسلیم فاضلی اور ندا فاضلی، سگے بھائی تھے، کزنز نہیں۔
اُن کے بقول ’ندا فاضلی عمر میں ان سے بڑے تھے، تسلیم فاضلی اپنے بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے تیسرے بھائی صبا فاضلی بھی معروف شاعر تھے۔ ان تینوں بھائیوں کے والد کا نام دعا دبائیوی تھا، جو خود بھی اچھے شاعر تھے۔یہ کہنا غلط ہے کہ یہ لوگ کزنز تھے۔‘
اسی طرح مشہور فلمساز اور مصنف کمال امرہوی، جنھوں نے ’پاکیزہ‘ اور ’رضیہ سلطان‘ جیسی فلمیں بنائیں، مشہور شاعر رئیس امرہوی کے سگے بھائی نہیں تھے۔
رئیس امروہی کے حقیقی بھائی، مشہور شاعر جون ایلیا، محمد عباس اور صحافی سید محمد تقی تھے، کمال امروہی ان کے چچا زاد بھائی تھے، کیونکہ رئیس امروہی کے والد اور کمال کے والد سگے بھائی تھے۔
یہ تو اس دور کی باتہو گئی جب پاکستان اور انڈیا میں آنا جانا ممکن تھا اور خاندان بٹنے کے باوجود بھی ایک تھے۔ لوگ بآسانی آ جا سکتے تھے، اپنی اولادوں کو اپنے پیاروں سے ملوا سکتے تھے اور یادیں سمیٹ کر آ جاتے لیکن اب دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک میں مقیم رشتے داروں کا ایک دوسرے سے ملنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔