ایڈولف ہٹلر کے خون کے ڈی این اے کے تجزیے سے ماضی کے آمر کے نسب اور ممکنہ صحت کے بارے میں کچھ غیر معمولی نتائج کا انکشاف ہوا ہے۔ اگرچہ کئی اخباری سرخیوں نے صرف اس بات پر توجہ مرکوز کی ہے کہ آیا نازی آمر کا عضو تانسل چھوٹا تھا اور یہ کہ ان کا صرف ایک ہی خصیہ تھا تاہم ڈی این اے پر تحقیق میں اس سے بھی زیادہ سنگین نتائج سامنے آئے ہیں۔

ایڈولف ہٹلر کے خون کے ڈی این اے کے تجزیے سے ماضی کے آمر کے نسب اور ممکنہ صحت کے بارے میں کچھ غیر معمولی نتائج کا انکشاف ہوا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم کی جانب سے کی گئی سائنسی تحقیق نے اس افواہ کی تردید کی ہے کہ ہٹلر یہودی نسب سے تھے۔
اس سے یہ بھی پتا کہ ان میں ایک جینیاتی خرابی تھی جو جنسی اعضا کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔ ماہرین کو یہ سب کپڑے پر موجود ایک پرانے خون کے دھبے سے پتا چلا۔
اگرچہ کئی اخباری سرخیوں نے صرف اس بات پر توجہ مرکوز کی ہے کہ آیا نازی آمر کا عضو تانسل چھوٹا تھا اور یہ کہ ان کا صرف ایک ہی خصیہ تھا تاہم ڈی این اے پر تحقیق میں اس سے بھی زیادہ سنگین نتائج سامنے آئے ہیں۔ یعنی اس تحقیق کے بعد ہٹلر میں آٹزم، شیزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آرڈر کے رجحان نظر آئے۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں یہ اعصابی مسائل تھے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ بالکل ایسا نہیں ہے کیونکہ یہ تشخیص نہیں ہے۔
اس سائنسی تحقیق پر متعدد سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں اور ان خدشات کا اظہاربھی کیا گیا ہے کہ اس سے ہٹلر کی بدنامی ہو گی اور پھر یہ کہ ایسے میں کیا یہ تحقیق اخلاقی بھی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ایسا کرنا بھی چاہیے تھا؟
یہ خون آلود کپڑا ہٹلر کے بنکر میں موجود صوفے سے حاصل کیا گیا تھا جس کی مدد سے ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا’ہٹلرز ڈی این اے: بلیو پرنٹ آف اے ڈکٹیٹر‘ نامی چینل فور کی دستاویزی فلم کے پہلے چند منٹ کے اندر پروفیسر توری کنگ کہتی ہیں ’میں اس پر پریشان ہوں۔‘
جینیات کی ماہر نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کئی سال پہلے اس منصوبے میں حصہ لینے کے لیے ان سے پہلی بار رابطہ کیا گیا تو وہ ایڈولف ہٹلر جیسے شخص کے ڈی این اے کا مطالعہ کرنے کے ممکنہ مضمرات سے بخوبی آگاہ تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے سنسنی پھیلانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘
لیکن وہ کہتی ہیں ’اب کسی وقت یہ کسی نے کرنا تو تھا ہی‘ تو ایسے میں انھوں نے سوچا کہ ان کی کڑی نگرانی میں وہ یہ یقینی بنا سکتی ہیں کہ تحقیق انتہائی محنت اور درست طریقے سے آگے بڑھائی جا سکے۔ پروفیسر کنگ بڑے اور حساس منصوبوں کے لیے کوئی اجنبی نام نہیں ہیں۔
انھوں نے 2012میں لیسٹر میں ایک کار پارک کے نیچے دفن ہونے والے رچرڈ سوم کے ڈھانچے کی شناخت سامنے لانے کے لیے جینیاتی تحقیقات کی قیادت کی۔
مؤرخ اور پوٹسڈیم یونیورسٹی کے لیکچرار ڈاکٹر الیکس کے نے کہا کہ ’کلمین سنڈروم‘ جنسی خواہش کو بھی متاثر کرسکتا ہےکپڑے کا خون آلود ٹکڑا جو اب 80سال پرانا ہے، ہٹلر کے زیر زمین بنکر میں صوفے سے کاٹا گیا تھا، جہاں انھوں نے اس وقت خود کشی کی جب اتحادی افواج دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر برلن میں داخل ہوئی تھیں۔
بنکر کا معائنہ کرتے ہوئے امریکی فوج کے کرنل روزویل پی روزنگرن کوایک انوکھی جنگی ٹرافی یا انعام حاصل کرنے کا موقع ملا اور بس انھوں نے چپکے سے کپڑے کو اپنی جیب میں ڈال دیا۔
اس کپڑے کو فریم کر کے امریکہ کے گیٹسبرگ میوزیم آف ہسٹری میں نمائش کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔
سائنس دانوں کو یقین ہے کہ یہ واقعی ہٹلر کا خون ہے کیونکہ وہ وائی کروموسوم کو ایک مرد رشتہ دار کے ڈی این اے کے نمونے کے ساتھ مکمل طور پر ملانے میں کامیاب ہو گئے تھے جو ایک دہائی پہلے جمع کیا گیا تھا۔
جن نتائج کا ہم اب جائزہ لے رہے ہیں واقعی دلچسپ ہیں۔
یہ پہلا موقع ہے جب ہٹلر کے ڈی این اے کی شناخت کی گئی ہے اور چار سال کے دوران، سائنس دان دنیا کے سب سے خوفناک جابر حکمرانوں میں سے ایک کی جینیاتی بناوٹ کو دیکھنے کے لیے اسے ترتیب دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ ہٹلر یہودی نسب سے نہیں تھا، یہ ایک ایسی افواہ ہے جو 1920 کی دہائی سے گردش کر رہی تھی۔
ایک اور اہم دریافت یہ ہے کہ ہٹلر ’کلمین سنڈروم‘ کا شکار تھے جو ایک ایسی جینیاتی عارضہ ہے جو دوسری چیزوں کے علاوہ، بلوغت اور جنسی اعضا کی نشوونما کو متاثر کرسکتا ہے۔
خاص طور پر یہ جنسی اعضا کے چھوٹے ہونے اور نامکمل خصیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ اس وقت بھی ہٹلر کے بارے میں ایک افواہ تھی۔
مؤرخ اور پوٹسڈیم یونیورسٹی کے لیکچرار ڈاکٹر الیکس کے نے کہا کہ کلمین سنڈروم جنسی خواہش کو بھی متاثر کرسکتا ہے جو کافی دلچسپ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ ہمیں ان کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔‘
مؤرخین طویل عرصے سے اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ ہٹلر سیاست کے لیے اتنے مکمل طور پر کیوں وقف تھے کہ ’ان کی نجی زندگی نہ ہونے کے برابر تھی اور اس سے اس کی وضاحت کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم کے نتائج دلچسپ بھی ہیں اور مفید بھی۔ جیسا کہ پروفیسر کنگ کہتے ہیں: ’تاریخ اور جینیات کی شادی‘۔
زیادہ پیچیدہ اور متنازع وہ نتائج ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ہٹلر کو ایک یا ایک سے زیادہ اعصابی مسائلیا ذہنی صحت کے مسائل ہوسکتے ہیں۔
ان کے جینوم کو دیکھتے ہوئے اور ان کا پولیجینک سکور سے موازنہ کرتے ہوئے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہٹلر میں آٹزم، اے ڈی ایچ ڈی، شیزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آرڈر کی شکایت کا رجحان زیادہ تھا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر سائنسی علوم زیادہ پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔
پولیجینک سکورنگ کسی شخص کے ڈی این اے کی جانچ کرتا ہے اور اس بات کا حساب لگاتا ہے کہ ان میں بیماری پیدا ہونے کا کتنا امکان ہوسکتا ہے۔
یہ سکورکنگ دل کی بیماری اور عام کینسر جیسے حالات کے لیے کسی فرد کے رجحان کا پتا لگانے کے لیے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
لیکن یہ ان کے ڈی این اے کا موازنہ آبادی کے ایک بڑے نمونے سے کرتا ہے اور اس وجہ سے جب کسی ایک فرد کی بات آتی ہے تو نتائج بہت کم یقینی ہوتے ہیں۔
کنگز کالج لندن میں فرانزک جینیات کی پروفیسر ڈینس سنڈرکومب کورٹ کا خیال ہے کہ وہ ’اپنے مفروضوں میں بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔‘
سنہ 2018 میں اسی خون کے نمونے کی جانچ کرنے والی پروفیسر ڈینس سنڈر کورٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کردار یا طرز عمل کے لحاظ سے، میں نے سوچا کہ یہ بہت بیکار ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کرنا چاہیں گی کہ آیا کسی کو نتائج سے کوئی خاص حالت کا پتا چلتا ہے کیونکہ وہ ٹھیک طور پر جنسی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا یا جنسی اعضا کے ناقص ہونے کی وجہ سے مکمل دخول ممکن نہیں ہوتا۔
سادہ الفاظ میں ساتھی جینیاتی سائنسدان ڈاکٹر سندھیا رمن کہتی ہیں کہ ’صرف اس وجہ سے کہ آپ کے ڈی این اے میں کوئی چیز پائی جاتی ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اس کا اظہار کریں گے۔‘
کیمبرج یونیورسٹی کے آٹزم ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر سائمن بیرن کوہن کی دستاویزی فلم میں اس کی عکاسی ہوتی ہے: ’حیاتیات سے طرز عمل کی طرف سفر میں بہت خلا پائی جاتی ہے۔‘
’اس طرح کے جینیاتی نتائج کے ساتھ ایک بدنما داغ کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ وہاں کے لوگ سوچ سکتے ہیں، ’کیا میری تشخیص کسی ایسے شخص سے منسلک ہے جس نے اس طرح کے شیطانی کام کیے ہیں؟‘
وہ کہتے ہیں ’خطرہ جینیات تک مطالعہ محدود ہو جاتا ہے،‘ جب کہ بہت سارے دوسرے عوامل پر بھی غور کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ہٹلر کی ممکنہ طور پر 1889 کی تصویربرطانیہ کی نیشنل آٹسٹک سوسائٹی نے فوری طور پر اپنے ردعمل میں ان نتائج کو ’سستی شہرت‘ کی کوشش قرار دیا ہے۔
ریسرچ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٹم نکولس نے سخت الفاظ والے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’ناقص سائنس سے بھی بدتر، ہم (دستاویزی فلم) آٹسٹک لوگوں کے جذبات کو بے رحمانہ طور پر نظرانداز کرنے پر حیران ہیں۔‘
بی بی سی نے یہ خدشات چینل 4 اور بلنک فلمز کے سامنے اٹھائے، جس نے دستاویزی فلم بنائی تھی۔
ایک بیان میں اس کمپنی نے نشاندہی کی کہ پروفیسر بیرن کوہن جیسے ماہرین ’وضاحت کرتے ہیں کہ کوئی کس طرح کا برتاؤ کرتا ہے وہ بہت سے عوامل کی پیداوار ہے، نہ صرف اس کی جینیات بلکہ بہت اہم بات یہ ہے کہ ان کا ماحول، بچپن اور زندگی کے تجربات سے لے کر ہر چیز، ان کی پرورش کیسے ہوئی، تعلیم اور وسائل تک رسائی اور ان کے ارد گرد کے ثقافتی عوامل۔‘
’پروگرام اس بات پر زور دیتا ہے کہ فلموں میں ظاہر ہونے والی جینیاتی معلومات ہٹلر پر روشنی ڈالتی ہے، لیکن وہ ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ وہ حیاتیاتی طور پر کسی خاص انداز میں برتاؤ کر رہا تھا۔‘
مؤرخ پروفیسر تھامس ویبر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کوئی آمرانہ جینز نہیں ہوتے‘دستاویزی فلم کے نام پر بھی تعجب کا اظہار کیا گیا ہےٹ خاص طور پر دوسرا حصہ ’اے ڈکٹیٹرز بلیو پرنٹ‘۔
پروفیسر کنگ کا کہنا ہے کہ یہ وہ نام نہیں ہے جس کا وہ انتخاب کریں گی اور مؤرخ پروفیسر تھامس ویبر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس عنوان پر حیران ہیں کیونکہ انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ’کوئی آمرانہ جینز نہیں ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ انھیں ڈی این اے کا تجزیہ دلچسپ اور تشویشناک لگا ہے۔
ان کے مطابق یہ ’دلچسپ اس طرح ہے کہ اس سے بہت ساری چیزوں کی تصدیق ہوتی ہے جس پر مجھے پہلے ہی ہٹلر کے بارے میں شبہ تھا۔۔۔ لیکن مجھے اس بارے میں خدشات تھے کہ آیا لوگ جینیات میں بہت زیادہ پڑھیں گے، جیسے ’برے جین‘ کو تلاش کرنے کی کوشش کرنا۔
پروفیسر کنگ کا کہنا ہے کہ ’یہ ٹیلی ویژن ہے۔۔۔ اس کی نشریات کبھی کبھار بہت سادہ انداز میں ہوتی ہیں۔‘ پروفیسر کنگ، جو ایک سائنسدان کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو میڈیا کی حقیقتوں کے ساتھ متوازن کرنے کا بہت تجربہ رکھتے ہیں۔
’وہ (دستاویزی فلم بنانے والے) ایک مختلف انداز اختیار کرسکتے تھے اور بہت سنسنی خیز ہوسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا ہے، انھوں نے کچھ باریکی کو پکڑنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ اور ہم نے حفاظتی اقدامات لیے ہیں۔
چینل 4 نے یہ کہتے ہوئے شو کے نام کا دفاع کیا کہ ’ڈی این اے کو عام بول چال میں زندگی کا بلیو پرنٹ کہا جاتا ہے۔‘ اور یہ کہ اس کا کام ’ایسے پروگراموں کو بنانا ہے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچیں اور اس پروگرام کا مقصد پیچیدہ سائنسی نظریات اور تاریخی تحقیق کو تمام ناظرین کے لئے قابل رسائی بنانا ہے۔‘
ہٹلر کے بنکر میں ایک شخص اس صوفے کا جائزہ لیتے ہوئے جس پر ہٹلر کے خون کا دھبہ موجود تھااس منصوبے کی اخلاقیات کے بارے میں بہت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔
کیا ہٹلر کے ڈی این اے کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے تھی اگر براہ راست اس کے خاندان میں سے کسی کی اجازت نہ ہو؟
اور اس سے اس حقیقت پر کیا اثر پڑتا ہے کہ وہ تاریخ کے بدترین مظالم میں سے ایک کا ذمہ دار تھا؟
پروفیسر کنگ کا کہنا ہے کہ ’یہ ہٹلر ہے۔ وہ کوئی صوفیانہ کردار نہیں ہے جس پر کوئی بھی ڈی این اے کی تحقیق نہیں کر سکتا۔ یہ فیصلہ کون کرتا ہے؟‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ یورپ میں متعدد لیبارٹریوں نے اس منصوبے کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور یہ امریکہ میں ایک سہولت تھی جس نے اس پر تحقیق کی۔
دستاویزی فلم بنانے والوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ تحقیق ’تعلیمی کام کے لیے معیاری اخلاقی جائزے کے عمل سے گزری ہے‘ جس میں دو ممالک میں کیے جانے والے جائزے بھی شامل ہیں۔
ہٹلر 1933 میںتو کیا یہ تحقیق کی جانی چاہیے؟ بی بی سی نے متعدد جینیاتی سائنسدانوں اور مورخین سے بات کی، اور اس کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ یہ کس سے پوچھ رہے ہیں۔
دستاویزی فلم میں موجود لوگ تو اس کا دفاع کرتےہیں اور ان کا جواب ہاں میں ہے۔ اس سے ہٹلر کی زیادہ مکمل پروفائل بنانے میں مدد ملتی ہے، ایک ایسا شخص جو اب بھی یکساں طور پر مسحور اور خوفزدہ کر دینے والا ہے۔
پروفیسر ویبر کا خیال ہے کہ ’ہمیں ماضی کی انتہا پسندی کو سمجھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔‘
تاہم اس پر تمام مؤرخین متفق نہیں ہیں۔
یوٹریکٹ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تاریخ کی اسسٹنٹ پروفیسر ایوا ووکوسک کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں یہ سمجھانے کی کوشش کرنے کا ایک بہت ہی مشکوک طریقہ ہے کہ ہٹلر کے اقدامات کن عوامل کے اثر میں تھے۔‘
ڈاکٹر ووکوسک نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سمجھ سکتی ہیں کہ لوگ کیوں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن ’ہم جو بھی جواب چاہتے ہیں وہ ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے نہیں مل سکتے۔‘
ایمسٹرڈیم کے این آئی او ڈی انسٹی ٹیوٹ کی مؤرخ این وین مورک کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ تحقیق دلچسپ ہے لیکن اس سے تاریخ کے حقیقی اسباق کو دھندلا دینے کا خطرہ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ہٹلر کے جنسی اعضا پر توجہ مرکوز کرنا ہمیں اس بارے میں کچھ نہیں سکھاتا کہ بڑے پیمانے پر تشدد اور نسل کشی کس طرح کام کرتی ہے اور یہ کیوں ہوتی ہے۔
ہٹلر ایک خاتون کے ساتھمطالعہ مکمل ہونے اور اس کے تحقیقی جائزے کے بعد اس تحقیق کے مکمل نتائج دستیاب ہوں گے۔
پروفیسر ویبر کا کہنا ہے کہ ان کا استعمال ’انتہائی احتیاط اور سنجیدگی سے‘ کیا جانا چاہیے، لیکن انھیں امید ہے کہ یہ کسی نہ کسی طرح سے مددگار ثابت ہوگا۔
’یہ تحقیق کے نتائج کے بارے میں اچھی بات ہے۔۔ یہ پانچ، 150 یا 500 سال کے عرصے میں ہوسکتا ہے۔ یہ تحقیق آنے والی نسلوں کے لیے ہے اور مجھے یقین ہے کہ ہوشیار لوگ مستقبل میں ان کا استعمال کریں گے۔‘
لیکن ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان نتائج کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹر کے کا کہنا ہے کہ ہر ایک کو ’سائنس کی پیروی کرنی چاہیے‘ اور یہ واضح کرنا چاہیے کہ ہم کیا جانتے ہیں اور کیا نہیں۔
’اس دستاویزی فلم کو دیکھنے والے کسی بھی شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر درست طریقے سے لکھے۔‘