ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارے فون کا استعمال ہمارے تعلقات کے لیے اچھا نہیں ہے مگر اس کے باوجود بھی ہم دن میں درجنوں بار موبائل فون اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹھے ہوتے ہیں۔
ہمارے فون کا استعمال ہمارے تعلقات کے لیے اچھا نہیں ہےہم سب یہ جانتے ہیں کہ ہمارے فون کا استعمال ہمارے تعلقات کے لیے اچھا نہیں ہے مگر اس کے باوجود بھی ہم دن میں درجنوں بار موبائل فون اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کو نظر انداز کر کے فون پر توجہ مرکوز رکھنے والی عادت آپ کا معمول بن کر رہ جاتی ہے۔
اس سے آپ کے تعلقات پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے کیونکہ اس سے آپ کے شریکِ حیات کو لگتا ہے کے اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح والدین کے فون کا استعمال چھوٹے بچوں کے ساتھ تعلقات کو کمزور کر سکتا ہے اور قدرے بڑے بچوں کی خود اعتمادی کو متاثر کر سکتا ہے۔
ایک ماہر نفسیات کے مطابق فون کے استعمال پر قابو نہ رکھنے کی عادت پر تنقید کے بجائے اگر انسان فون اور دیگر آلات اٹھانے کے وقت پر زیادہ سوچ بچار کرے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
ڈاکٹر کیٹلن ریگر یونیورسٹی کالج لندن میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ تجویز کرتی ہیں کہ جب آپ کسی اور کے ساتھ ہوں تو آپ بغیر سوچے سمجھے اپنا فون نہ اٹھائیں۔
جب بھی آپ فون کی طرف متوجہ ہوں تو دوسروں کو یہ بتائیں کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیںجب بھی آپ فون کی طرف متوجہ ہوں تو دوسروں کو یہ بتائیں کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور کتنی دیر آپ اسے استعمال کریں گے۔ استعمال کے بعد آپ فون واپس نیچے رکھ دیں اور پھر سے بات چیت میں مگن ہو جائیں۔
یہ سننے میں بہت آسان لگتا ہے مگر ڈاکٹر کیٹلن ریگر کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹی سی تبدیلی ہمارے رویے کو بدلنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ہم اکثر میسجز پر نظر رکھتے ہیں، نوٹیفکیشنز کا بغور جائزہ لیتے ہیں یا جلدی میں بغیر سوچے ہی فون پر کچھ نہ کچھ جلدی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق اصل اہمیت شفافیت کی ہے۔ اگر کوئی میسج آیا بھی ہے تو آپ اسے پڑھنے سے قبل اپنے ساتھ موجود لوگوں کو اس بارے میں بتائیں کہ ’میں نے اس میسج کا جواب دینا ہے اور پھر میں آپ کے ساتھ شریک گفتگو ہو جاؤں گا۔‘
یہ بھی بتائیں کہ ’میں نے اپنی ٹرین کے اوقات کو دیکھنا ہے‘ یا کہ ’میں نے اپنی ماں کی طرف سے موصول ہونے والے پیغام کا جواب دینا ہے۔‘
اب اس سے آپ کی فون پر مگن رہنے والی عادت میں ایک خلل پیدا ہو گا اور آپ کے فون پر مصروف ہونے کی وجوہات بتانے سے دوسرے لوگوں کو بھی یہ لگے گا کہ ان کی بھی کوئی اہمیت ہے۔
ڈاکٹر کیٹلن ریگر کے مطابق اس طرح اعتماد میں لینے سے دوسروں کو یہ نہیں لگے گا کہ انھیں نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس سے آپ جوابدہ بھی رہتے ہیں اور اس بات کے امکانات بھی کم ہیں کہ آپ دوسری ایپس میں مگن ہو جائیں یا زیادہ وقت کے لیے ’سکرولنگ‘ شروع کر دیں۔
اس طرح سے آپ کو تعلقات میں بہتری لانے میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر کلیر ہارٹ یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن میں سائیکالوجی کے شعبے کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے ایک تحقیق کرنے والی ٹیم کی قیادت کی جس میں 196 افراد سے ان کے تعلقات اور فون کے استعمال کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
مجموعی طور پر نتائج سے پتا چلا کہ جتنا زیادہ آپ فون پر مگن ہو کر کسی کو نظر انداز ہونے کا احساس دلاتے ہیں اتنا ہی آپ کا رشتہ خراب ہو جاتا ہے۔
والدین کے فون کا استعمال چھوٹے بچوں کے ساتھ تعلقات کو کمزور کر سکتا ہےان کے مطابق ’ہر کسی کا ردعمل ایک جیسا نہیں ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق یہ شخصیت پر منحصر ہے، لیکن جب کوئی شخص یہ محسوس کرے کہ اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے تو یہ احساس انتقامی کارروائی کو جنم دے سکتا ہے۔
’جب آپ اپنا فون اٹھا لیتے ہیں اور تب یہ ایک خطرناک عمل بن جاتا ہے کیونکہ ہر ساتھی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے زیادہ اہمیت تو سکرین پر جو دکھائی دے رہا ہے اسے مل رہی ہے۔‘
ہر بار جب آپ فون پر مگن ہوتے ہیں تو اس سے آپ کا باہمی تعلق ختم ہو کر رہ جاتا ہے اور جب آپ ایک دوسرے سے بات چیت کے بجائے سکرین دیکھتے ہیں تو پہلے جیسی حالت میں واپس آنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔