“جب میری شادی وائرل ہوئی تو میں ایسی خوفناک ذہنی اذیت میں چلی گئی جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یہ میری زندگی کا بدترین وقت تھا۔ جس مرحلے پر دلہن اور دلہا محبت اور خوشی میں ہوتے ہیں، وہاں میرے لیے سب کچھ ایک ڈراؤنے خواب میں بدل گیا۔ مجھے ہر طرف سے اس قدر تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب میں نے حارث سے طلاق کے بارے میں سوچا۔ میری ذہنی حالت بری طرح متاثر ہوئی اور میں ٹوٹ چکی تھی۔ صرف میں جانتی ہوں کہ اس پورے بحران نے مجھے کس حد تک تکلیف پہنچائی۔ میرے خوشی کے دنوں کو لوگوں نے میرے لیے پچھتاوے میں بدل دیا۔”
ڈاکٹر نبیحہ علی خان، جو ایک ماہرِ نفسیات، سوشل میڈیا ایکٹوِسٹ اور معروف میڈیا شخصیت ہیں، حال ہی میں اپنی شادی کی وجہ سے ایسی توجہ کا مرکز بنیں جو خوشی سے زیادہ آزمائش ثابت ہوئی۔ ان کا نکاح حارث کھوکھر سے ہوا جس کی سادگی اور پھر اس کے بعد سامنے آنے والی تفصیلات نے پورے انٹرنیٹ پر طوفان مچا دیا۔ مولانا طارق جمیل نے اپنے گھر میں ان دونوں کا نکاح پڑھایا، اور چند ہی گھنٹوں میں یہ جوڑا سوشل میڈیا ٹرینڈ بن گیا۔
لیکن اصل ہنگامہ تب کھڑا ہوا جب نبیحہ اور حارث نے اپنے نکاح اور دلہن کے زیور و لباس کی قیمت بتائی۔ اس انکشاف نے چند لمحوں میں تعریفوں کو تنقید میں بدل دیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے دونوں پر طنز، طعنے اور شدید تنقید کی بارش کر دی۔ وہ لمحے جن میں دو لوگ اپنی نئی زندگی کی ابتدا کرتے ہیں، نبیحہ کے لیے ذہنی دباؤ کا پہاڑ ثابت ہوئے۔
نبیحہ نے وصی شاہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مسلسل بوجھ تلے دبتی چلی گئیں۔ سوشل میڈیا کی یلغار، میمز، تضحیک آمیز تبصرے اور کردار کشی نے انہیں ذہنی طور پر بیمار کر دیا۔ ان کے مطابق نئی زندگی کی خوشی خوف میں بدل گئی، اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ٹوٹتی گئیں۔
یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب نبیحہ نے حارث خؤکحر سے الگ ہونے کا سوچا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس قدر دباؤ میں تھیں کہ انہیں لگا کہ شاید شادی ختم کرنا ہی ان کے لیے آسان راستہ ہے۔ مگر ذہنی انتشار اور جذباتی تباہی کے باوجود انہوں نے حارث سے بات چیت کے بعد ثابت قدم رہنے کا فیصلہ کیا۔
گفتگو کے دوران نبیحہ رو پڑیں۔ ان کے آنسو واضح کر رہے تھے کہ پیار اور خوشی کے نام پر جو لمحہ ہونا چاہیے تھا، اسے عوامی تنقید نے شدید صدمے اور پچھتاوے میں بدل دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس پورے معاملے کی تکلیف صرف وہ سمجھ سکتی ہیں، کیونکہ یہ خوشی کا نہیں بلکہ زخموں کا سفر تھا۔
نبیحہ کی اس کہانی نے انٹرنیٹ پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جب ہر چیز کنٹینٹ بن جائے، تو انسان کے جذبات، اس کی ذہنی صحت اور اس کی نجی زندگی کس حد تک محفوظ رہ جاتی ہے۔ یہ واقعہ اس بات کی بھی تلخ یاد دہانی ہے کہ عوامی توجہ جہاں شہرت لاتی ہے، وہیں بے رحمی سے انسان کی خوشیاں بھی چھین لیتی ہے۔