“نورِ جہاں صرف ڈیڑھ سال کی ہے۔ بھلا کوئی بچہ ڈیڑھ سال میں اسکول بھیجتا ہے؟ یہ صرف بےوقوفی ہے۔ چار سال بھی صحیح عمر نہیں، پانچ سال بھی مناسب نہیں۔ یہ سارے اسکول سسٹمز پیسہ بنانے کی مشینیں ہیں، جو بچوں کے ذہنوں میں طبقاتی فرق پیدا کرتے ہیں اور ہر چیز کو پیسے سے جوڑ دیتے ہیں۔ والدین سے بہتر بچے کو کون سکھا سکتا ہے؟ ہاں، اسکول کی ضرورت ہوتی ہے، مگر ایک خاص عمر کے بعد۔ فن لینڈ میں سات سال سے پہلے اسکول جانے کی اجازت ہی نہیں، کیونکہ یہ عمر سائنسی طور پر ثابت شدہ ہے جس میں بچہ اصل طور پر سیکھ سکتا ہے۔ پانچ سال کے بچوں کی ہڈیاں تک پوری طرح نہیں بنتیں۔ اسلامی طور پر بھی یہی کہا گیا ہے کہ چھوٹی عمر میں اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھو اور خود تعلیم دو۔”
پاکستانی شوبز کا معروف نام اسد صدیقی ایک بار پھر سوشل میڈیا پر گفتگو کا محور بن گئے ہیں، لیکن اس بار کسی ڈرامے یا کردار کی وجہ سے نہیں بلکہ والدین اور اسکولوں کے موجودہ رجحانات پر ان کی دوٹوک رائے کی وجہ سے۔ جی ٹی وی کے ڈرامے شکنجہ میں اپنی طاقتور اداکاری سے داد سمیٹنے والے اسد صدیقی نے اپنی اہلیہ زارا نور عباس کے شو میں ایک ایسا موضوع چھیڑا جس نے کئی والدین کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔
زارا نور عباس کے سوال پر کہ وہ اپنی بیٹی نورِ جہاں کو اسکول میں داخل کیوں نہیں کرا رہے، اسد نے جدید نظامِ تعلیم کے ان پہلوؤں کی نشاندہی کی جو روزمرہ زندگی میں عام ہو چکے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ اسکول جلدی شروع کروانے کا جنون والدین میں بےجا دباؤ بھی پیدا کرتا ہے اور بچوں کی معصومیت بھی چھین لیتا ہے۔ ان کے مطابق اسکول آج کل تعلیم سے زیادہ کاروبار کا روپ دھار چکے ہیں، جہاں فیسوں کا مقابلہ، طبقاتی فرق اور نمائش جیسے عوامل بچوں کی ذہنی نشوونما پر براہِ راست اثر ڈالتے ہیں۔
اسد کے خیالات سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر بحث نے جنم لیا ہے۔ کئی صارفین اس بات سے اتفاق کر رہے ہیں کہ والدین کی تربیت دنیا کی پہلی درسگاہ ہے اور بچوں کو ابتدائی برسوں میں گھر کی گود ہی سب سے مضبوط بنیاد دیتی ہے۔ کچھ صارفین نے فن لینڈ کی مثال کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہاں کا تعلیمی نظام دنیا میں بہترین مانا جاتا ہے اور سات سال کی عمر میں اسکول شروع کرنے کا اصول آج ایک مثالی ماڈل سمجھا جاتا ہے۔
اداکار کی جانب سے اسلامی پہلو کا ذکر بھی توجہ کا مرکز بنا، جہاں انہوں نے بتایا کہ مذہب بھی چھوٹی عمر میں والدین کی تربیت ہی کو پہلی ترجیح دیتا ہے۔ اسد کا کہنا تھا کہ بچوں کو اسکول بھیجنے کی اصل عمر وہ ہے جب ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما ایک متوازن مرحلے پر داخل ہو جائے، محض معاشرتی دباؤ کے تحت نہیں۔
یہ گفتگو نہ صرف نئی بحث کا آغاز بن گئی ہے بلکہ والدین کو اپنی ترجیحات پر دوبارہ غور کرنے کا موقع بھی فراہم کر رہی ہے۔ اسد صدیقی کی یہ رائے بلاشبہ بہت سے خاندانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کیا ہم واقعی بچوں کو صحیح وقت پر صحیح سمت دے رہے ہیں یا صرف ایک دوڑ میں شامل ہیں جس کا مقصد سمجھ میں ہی نہیں آتا۔