والدہ کے اُدھار سے فیس بُک کا سب سے کم عمر ملازم بننے تک: ’میں سکول میں تھا جب مجھے مارک زکربرگ کی ای میل موصول ہوئی‘

مائیکل 13 برس کے تھے جب انھوں نے اپنی ایپ شائع کی۔ پہلے مہینے ہی جب ایپل کی طرف سے 5000 ہزار ڈالر ملے تو ان کی ماں پریشان ہو گئیں۔ کمسنی میں کیسے وہ امیر بنے؟
Michael Sayman
Emileechelasi
مائیکل ایک ایسے نوجوان ہیں جن کی صلاحیتوں پر بڑی ٹیکنالوجی فرمز نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے

2000 کی دہائی کے اوائل میں مائیکل سائمن نوعمر تھے اور اس وقت انھیں بس دو ہی چیزیں پسند تھیں۔ ان دو چیزوں میں سے ایک اُن کی والدہ کی جانب سے ’سیکرٹ ریسپی‘ کے ذریعے تیار کی گئی چکن کی ایک ڈش تھی۔

’یہ (ڈش) بہت لذیز ہوتی تھی۔ میری والدہ ہمیشہ مجھے بتاتی تھیں کہ چکن کو اس خآص انداز میں بنانے کی ترکیب انھوں نے اپنی دادی سے سیکھی تھی، جو انھوں نے کبھی کسی کے ساتھ شیئر نہیں کی، ہمارے ساتھ بھی نہیں۔‘

مائیکل کے والدین بولیویا سے نقل مکانی کر کے امریکہ گئے تھے جہاں انھوں نے میامی کے مضافات میں واقع ایک شاپنگ مال میں اپنا ایک چکن ریستوران چلانا شروع کر دیا۔

مائیکل نے اپنے بچپن کا بیشتر وقت اسی ریستوران میں اپنا ہوم ورک کرتے گزارا اور اُن کے مطابق وہ ایک خوشگوار اور بے فکری والی زندگی تھی۔

یہ وہی دور تھا جب ایپل کمپنی کے اُس وقت کے سی ای او سٹیو جابز نے ایک ایسی چھوٹی مگر طاقتور ڈیوائس بنانے کا خواب دیکھا جس نے آنے والے دنوں میں ڈیجیٹل دور کی تعریف ہی بدل کر رکھ دی۔

اور اس ڈیوائس کی گرفت میں آنے والوں میں مائیکل بھی تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے یاد ہے کہ میں نے سٹیو جابز کو یہ اعلان کرتے ہوئے دیکھا تھا، جنھیں یقین تھا کہ یہ ڈیوائس دنیا میں اگلا انقلاب برپا کر دے گی۔‘

سٹیو جابز نے 9 جنوری 2007 کو سان فرانسسکو میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ’آج ہم تین انقلابی مصنوعات متعارف کروا رہے ہیں۔‘

انھوں نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹچ کنٹرولز، ایک موبائل فون، اور انٹرنیٹ کمیونیکیشن ڈیوائس سے منسلک ایک بڑی سکرین والا آئی پوڈ۔۔۔ یہ تین الگ الگ ڈیوائسز نہیں ہیں۔ بلکہ یہ ایک ہی چیز ہے۔ اور ہم اسے آئی فون کہتے ہیں۔‘

مائیکل یاد کرتے ہیں کہ ’میں اُس وقت 10 سال کا تھا، اور جب میں نے آئی فون کا اشتہار دیکھا، تو میں فوراً اپنے والدین کو یہ بتانے کے لیے بھاگا کہ دیکھیں، اب سب کچھ بدلنے والا ہے، اس میں وہ سب کچھ ہے جس کی کسی بھی شخص کو ضرورت ہو سکتی ہے، ای میل، ایک مکمل ویب براؤزر...‘

مائیکل بتاتے ہیں کہ اس پر اُن کے والدین نے جواب دیا کہ ’کون سی ای میلز؟ تمھیں کوئی ای میل موصول نہیں ہوتیں اور یہ کہ تمھیں اِن کی ضرورت کیوں ہے؟‘

سٹیو جابز پہلے آئی فون کی رونمائی کرتے ہوئے
Getty Images
سٹیو جابز پہلے آئی فون کی رونمائی کرتے ہوئے

درحقیت اس دور میں ان کے والدین کی اتنی مالی حیثیت نہیں تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو آئی فون خرید کر دے سکیں۔

یہ وہی دور تھا جب عالمی کساد بازاری کے جھٹکے عالمی محسوس کیے جانے لگے تھے اور مائیکل کے والدین کا ریستوران کا کاروبار بھی اب پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔

اس موقع پر ان کی والدہ نے تجویز دی کہ چونکہ ان (مائیکل) کی سالگرہ قریب ہے تو وہ اپنے رشتہ داروں کو سے رابطہ کریں اور سالگرہ کے تحفے کے طور پر ہر ایک سے رقم کا تقاضہ کریں تاہم نیا آئی فون خریدنے کے لیے رقم جمع ہو سکے۔

اس طرح مائیکل اپنی سالگرہ کے موقع پر 400 ڈالر جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اور اس رقم کی مدد سے خریدا ہوا آئی فون جیسے ہی اُن کے ہاتھ میں آیا تو وہ اس جنون میں مبتلا ہو گئے کہ اس ڈیوائس میں سب کچھ کیسے کام کرتا ہے۔ اسی تجسس کا پیچھا کرتے کرتے وہ ایپل کی طرف سے بھیجی جانے والی ہر اپ ڈیٹ پر نظر رکھنا شروع ہو گئے۔

سنہ 2008 میں ایپل نے ایپ سٹور کا آغاز کیا۔ مائیکل کا کہنا ہے کہ ’مجھے یاد ہے کہ سٹیو جابز نے سٹیج پر کہا تھا کہ اب ایپ بنانا بہت آسان ہو گا۔‘

مائیکل کے مطابق انھوں نے سٹیو جابز کی اس بات پر یقین کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مائیکل ’کلب پینگوئن‘ نامی گیم سے بہت رغبت رکھتے تھے۔

’یہ گیم ملٹی پلیئر تھی، بالکل ایک سوشل نیٹ ورک کی طرح جہاں بچہ ایک گمنام پینگوئن ہوتا تھا جو ایک ورچوئل دنیا میں گھومتا تھا، اور اس کے پاس ایک ’اگلو‘ (برف میں بنا ہوا ایک عارضی گھر) تھا، جسے وہ سجا سکتے تھے۔‘

’یہ سب بہت پرلطف تھا، اور مجھے یہیاد ہے کہ میں سوچ رہا تھا کہ کیا ہی اچھا ہو اگر میں یہ گیم اپنے فون پر کھیلوں۔‘ مائیکل نے آن لائن تلاش کرنا شروع کر دیا کہ اس بات کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا۔‘ لیکن آگے چل کر انھیں احساس ہوا کہ اس کام کو کرنے کے لیے درکار صلاحیت اُن میں نہیں ہے۔

’تو میں نے سوچا، کیا ہی اچھا ہو کہ اگر میں ایک ایسی ایپ بناؤں جہاں شاید آپ اپنے فون پر گیم تو نہیں کھیل پائیں گے مگر یہ گیم کیسے کھیلنی ہے اس بارے میں یہ ایپ رہنمائی دے سکتی ہو، جس پر ’لاگ اِن‘ کیا جا سکے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا جا سکتا ہو جو کوئی گیم کھیل رہے ہوتے ہیں؟‘

انھوں نے ایسا ہی کیا۔ مائیکل نے گیم کے ساتھ ایک ایپ بنائی لیکن اب انھیں ’ایپ سٹور‘ سے ایک ’ڈویلپر لائسنس‘ خریدنے کے لیے 100 ڈالر کی ضرورت تھی، جو اس کے خاندان کے لیے واقعی بہت زیادہ رقم بنتی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی والدہ سے بات کی کیونکہ میرے والد نے تو انکار ہی کرنا تھا۔ پہلے تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ میں پاگل ہوں اور یہ بھی کہ اُن کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ’پلیز مجھ پر بھروسہ کریں، میں پیسہ کمانے جا رہا ہوں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں آپ کو یہ رقم واپس کر دوں گا۔‘

’خاصے بحث مباحثے کے بعد والدہ مان گئیں اور مجھے کہا کہ ’یا تو تمھیں پورے 100 ڈالر واپس کرنا ہوں گے اور اگر نہ کر سکے تو ہر رات ریسٹورنٹ کی صفائی کرنے پڑے گی۔‘

مائیکل کے مطابق اُن کی والدہ نے ایک شرط اور بھی عائد کی اور وہ یہ تھی کہ ’مجھے کسی بھی حالت میں اپنے والد کو یہ نہیں بتانا تھا کہ والدہ نے مجھے اس کام کے لیے 100 ڈالر دیے ہیں۔‘

مائیکل اپنے والد کے ہمراہ
Cristina Zayman
مائیکل اپنے والد کے ہمراہ

مائیکل کی عمر فقط 13 برس تھی جب انھوں نے اپنی یہ ایپ پبلش کی۔

’دیکھتے ہی دیکھتے یہ چارٹ میں سب سے اوپر آ گئی۔ جب اگلے روز میں سو کر اٹھا تو معلوم ہوا کہ میری ایپ امریکہ میں ٹاپ ریفرل ایپس میں ساتویں نمبر پر تھی۔‘

مائیکل کہتے ہیں کہ ’اگر آج کے دور میں آپ کسی کو یہ بتائیں کہ آپ کی ایپ ہٹ لسٹ میں ہے، تو وہ یقیناً کہیں گے کہ ’مبارک ہو، آپ امیر ہو گئے ہیں۔‘ لیکن جس دور کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت کسی کو ایسی چیزوں کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں تھا۔ اس لیے جب میں نے اپنے والدین کو یہ دکھایا تو اُن کا ردعمل محض یہ تھا ’اوہ، یہ بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘ اور بس انھوں نے اتنا ہی کہا۔‘

’دراصل، میں بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ اس سے مجھے کتنے پیسے ملنے والے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے یاد ہے کہ پہلے مہینے جب ایپل نے مجھے چیک بھیجا تو میری والدہ پریشان ہو کر میرے پاس آئیں اور کہا کہ ایپل نے ابھی اُن کے اکاؤنٹ میں 5,000 ڈالر جمع کروائے ہیں۔ وہ تصدیق کرنا چاہتی تھی کہ یہ کسی غلطی کا نتیجہ تو نہیں ہے۔‘

لیکن بینک بیلنس میں موجود رقم اس کی ناقابل تردید شواہد میں سے تھی۔

ایک غیر متوقع پیغام

مائیکل نہیں جانتے تھے کہ ریستوران چلانے والے ان کے والدین اس دور میں کسی قدر معاشی مشکلات کا شکار تھے۔اُن کے والدین سب کچھ کریڈٹ پر خرید رہے تھے اور وہ مسلسل قرض کی دلدل یں دھنستے جا رہے تھے جبکہ عالمی معیشت تباہ ہو رہی تھی۔

’مجھے یاد ہے کہ انھوں نے میری بہن اور مجھ سے ہماری معاشی حالت کی حقیقت چھپا رکھی تھی تاکہ ہمیں ایسا محسوس نہ ہو کہ دنیا کیسے ان کے پاؤں تلے سے نکل رہی ہے۔‘

ان کے مطابق ’لیکن ہمیں شبہ تھا کہ چیزیں اچھی طرح سے نہیں چل رہی ہیں کیونکہ رات 10 بجے تک ریستوران میں رہنے کے بجائے وہ صبح دو یا تین بجے تک وہاں موجود رہتے تھے۔‘

مائیکل نے ایپلی کیشنز تیار کرنا جاری رکھیں اور جلد ہی اپنے خاندان کا ہاتھ بٹانے والے فرد بن گئے۔

’ایپل سے ملنے والی رقم سے انھوں نے ان قرضوں کی ادائیگی شروع کی جو اس کے والدین نے سالہا سال تک لے رکھے تھے۔‘

مائیکل کےمطابق ’مجھے یاد ہے کہ جب میں ریستوران میں گیا تو تمام ملازمین مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ وہ مجھ سے پوچھتے کہ ’ایپس‘ کیسی جا رہی ہیں اور میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ وہ بہت اچھی جا رہی ہیں۔ میں مزید ایپس بھی بنا رہا ہوں۔‘

’میں بہت بھولا تھا۔ مجھے احساس نہیں تھا کہ میں کس قسم کے دباؤ سے گزر رہا تھا۔‘ مائیکل کی سکول کی کارکردگی متاثر ہو رہی تھی اور وہ اچھے گریڈ نہیں لے پا رہے تھے۔

دریں اثنا مائیکل نے درجنوں مختلف ایپلی کیشنز کو تیار کرنا جاری رکھا، کچھ کامیاب ہوئیں مگر باقی اتنی زیادہ کامیاب نہ ہو پائیں۔

ان میں سے ایک، 4 سنیپس، سنہ 2013 میں سامنے آئی اور ایپ سٹور پر لانچ کی گئی۔ اس میں ایک سوشل تصویر تھی اور اندازہ لگانے والی گیم تھی جس میں کھلاڑی کسی لفظ سے متعلق تصاویر لیتے ہیں اور اپنے دوستوں کو بھیجتے ہیں تاکہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ کیا ہے۔

یہ کھیل تیزی سے بے حد مقبول ہو گیا۔

’ایک دن اس ایپ کی ہی بدولت انھیں اچانک ایک نوجوان کا پیغام ملا جو ہوڈیز پہنتا تھا: مارک زکربرگ، جو اس وقت فیس بک کہلاتا تھا کے شریک بانی تھے۔‘

مارک زکربرگ سے ملاقات کے موقع پر
Cristina Zayman
مارک زکربرگ سے ملاقات کے موقع پر

ان کے مطابق ’میں ریاضی کی کلاس میں تھا اور مجھے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ مارک زکربرگ مجھے کیلیفورنیا میں ملنا چاہتے ہیں تاکہ ہم ذاتی طور پر مل سکیں اور میں نے کیا کچھ کیا ہے اس کے بارے میں انھیں بتا سکوں۔‘

’میں یقین نہیں کر سکتا تھا کہ یہ سچ ہے۔‘

لیکن یہ سب ایسا ہی تھا، اور وہ سان فرانسسکو گئے۔۔۔ لیکن اکیلے نہیں۔

’اپنی والدہ کے ساتھ ملازمت کے انٹرویو میں جانا کتنا غیر روایتی ہے مگر وہ مجھے اکیلا نہیں جانے دے رہی تھیں۔‘

’میں 16 سال برس کا تھا اور میری ماں پریشان تھیں۔ ہم کبھی کیلیفورنیا نہیں گئے تھے، اس لیے انھوں نے کہا کہ ’میں نہیں جانتی کہ یہ مارک زکربرگ کون ہے، اس لیے میں تمھارے ساتھ جاؤں گی۔‘

اُن کے مطابق ’جب ہم وہاں پہنچے تو انھوں نے ہم سے کہا، ہیلو، آپ کیسے ہیں؟

’میرا نام مارک ہے، آپ سے مل کر خوشی ہوئی۔ میں جیسے ششدر رہ گیا، مگر میری والدہ کو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔‘

مائیکل کو وہاں انٹرن شپ مل گئی۔

’مجھے یاد ہے کہ میں یہ سوچنا شروع ہو گیا کہ میں کبھی میامی واپس نہیں جاؤں گا، میں کیلیفورنیا جاؤں گا اور وہیں رہوں گا۔ اور جب میں نے اپنی ماں کو بتایا تو وہ بہت اداس ہوئیں۔ ایک لاطینی ماں ہونے کے ناتے، یہ سب کچھ بہت ڈرامائی تھا۔ میری مان نے ہسپانوی میں بولنا شروع کیا: ’مجھے یاد ہے جب تم چھوٹے تھے اور میں تمھیں کتنی مشکل سے پال پوس رہی تھی۔‘

مائیکل یہ سب سُن کر بہت شرمندہ ہوئے۔

ایپ کِڈ

کئی مہینوں کی انٹرن شپ کے بعد، اور اپنی والدہ کی طرف سے بہت سی آنسو بھری اور رونے دھونے پر مبنی کالوں کے بعد، جس دن مائیکل 18 برس کے ہوئے تو انھیں باقاعدہ ملازمت کی پیشکش کی گئی۔

’جب انھوں نے مجھے تفصیلات بتائیں تو میں اس پر یقین نہیں کر سکا۔ میں نے کبھی اتنی رقم لینے کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ میرے والدین نے بہت سکون محسوس کیا۔ یہ بہت اچھا تھا۔‘

مائیکل فیس بک (میٹا) کی تاریخ میں سب سے کم عمر ملازم بن گئے۔

اور جلد ہی ان کے آگے بڑھنے کا موقع آ گیا۔

سنیپ چیٹ، ایک جدید ایپلی کیشن جس نے صارفین کو تصاویر اور ویڈیوز کو دوستوں کے ساتھ شیئر کرنے کی اجازت دی جو ایک دن کے بعد غائب ہو جاتیں، جس سے مارک زکربرگ کے مفادات خطرات سے دوچار ہو گئے۔

صارفین کو فیس بک کے برعکس یہ ایپ پسند آئی، جہاں پوسٹس پبلک تھیں اور ہمیشہ وہیں رہتی ہیں، اور ایپ نے کام شروع کر دیا۔

مائیکل نے انسٹاگرام کی کہانیاں بنانا شروع کیں جو کہ تقریباً فیس بک کے تصور کے برعکس تھیں۔

’ہر کسی نے کسی ایسی چیز کے خیال سے اتفاق نہیں کیا جو ایک وقتی قسم کے مواد کی شیئرنگ تھی۔ لوگوں کو قائل کرنا ایک مشکل چیلنج تھا۔‘

لیکن زکربرگ کے لیے مائیکل جیسے نوجوان کا وژن ناقابل قیمت تھا، اور بجا طور پر کیونکہ اگرچہ انسٹاگرام سٹوریز سنیپ چیٹ کی ایک واضح نقل ہے، اس نے صارفین کی اُس دلچسپی کو دوبارہ حاصل کرنے میں مدد کی جو وہ کھو رہے تھے۔

Michael en Google, con una de las bicicletas de la compañía.
Enrique Galvez (mi tío)

کچھ سالوں کے بعد، مائیکل گوگل اور پھر ویڈیو گیم پلیٹ فارم روبلوکس پر چلے گئے۔

مزید برآں، وہ کئی بڑے منصوبوں کا حصہ رہے۔ یوں وہ تیزی سے اس انڈسٹری کے ذہین ترین انسانوں میں شامل ہو گئے اور سلیکون ویلی کی سب سے بااثر شخصیات میں سے ایک کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔

سنہ 2021 میں انھوں نے ’ایپ کڈ۔۔‘ نامی کتاب شائع کی جس میں انھوں نے یہ احوال بتائے کہ کیسے تارکین وطن کے بیٹے نے امریکی خواب کا ایک حصہ حاصل کر لیا۔‘

ایک سال بعد انھیں معروف ’فوربز میگزین نے دنیا کے 30 سال سے کم عمر کے 30 کامیاب ترین نوجوانوں میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا۔

فی الحال، وہ میٹا میں سافٹ ویئر انجینیئرنگ اور تخلیقی مصنوعی ذہانت کی ٹیم کا حصہ ہیں۔

آپ ریٹائرمنٹ کی عمر سے کتنی دور ہیں؟

مائیکل کا جواب تھا کہ ’تکنیکی طور پر، اگر میں ریٹائر ہونا چاہتا ہوں، تو میں یہ کر سکتا ہوں۔‘

’لیکن مجھے یہ کام نہیں لگتا۔ مجھے دفتر جانے اور وہ کام کرنے کا بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔۔۔ اور یہ ایسا نہیں ہے کہ جو میں نہیں کرنا چاہتا۔ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے چھوٹی عمر میں وہ چیز ملی جس سے میں محبت کرتا ہوں، اور مجھے اپنے آپ کو ثابت کرنے کے لیے کام کرتے رہنے کی ضرورت ہے کہ میں واقعی کیا قابل ہوں۔ میں ابھی اور بھی کرنا چاہتا ہوں۔‘

اگر وہ اپنا ارادہ بدلتے ہیں تو کوئی حرج نہیں: 30 سال کے ہوئے بغیر بھی، ان کے پاس پہلے ہی ریٹائر ہونے کے لیے کافی رقم ہے، لیکن کیا اس کے پاس اپنی ماں کی خفیہ چکن کی ترکیب خریدنے کے لیے کافی ہو گی؟

’نہیں، اس نے مجھے بالکل نہیں بتایا، کیونکہ وہ ترکیب انمول ہے!‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US