پاکستان کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں شامل ٹیموں لاہور قلندرز، پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے بعد اب کراچی کنگز بھی آئندہ دس برس تک اپنے موجودہ مالکان کے پاس ہی رہے گی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں شامل ٹیموں لاہور قلندرز، پشاور زلمی، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز، کراچی کنگز اور اسلام آباد یونائیٹڈ آئندہ دس برس تک اپنے موجودہ مالکان کے پاس ہی رہیں گی۔
مگر اس فہرست میں ملتان سلطانز شامل نہیں جس کے مالک علی ترین کے بورڈ اور پی ایس ایل انتظامیہ کے ساتھ اختلافات رہے ہیں۔
پی ایس ایل نے ایکس پر کراچی کنگز کے مالک سلمان اقبال اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے مالک علی نقوی کے بیانات شیئر کیے اور انھیں فرنچائز معاہدے کی 10 سالہ تجدید پر مبارکباد پیش کی۔ اس سے قبل لاہور قلندرز، پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالکان کے بیانات بھی شیئر کیے گئے اور سب نے لیگ میں آئندہ 10 سال کے لیے اپنی دلچسپی ظاہر کی۔
دوسری طرف ملتان سلطانز کے مالک علی خان ترین نے ایکس پر اپنے بیان میں ’الوداع‘ کہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں اپنے پیروں پر کھڑے رہتے ہوئے اس ٹیم کو کھو دینے کو ترجیح دوں گا، بجائے اس کے کہ میں (اس ٹیم کو) اپنے گھٹنوں پر رہ کر چلاؤں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ ٹیم جنوبی پنجاب کی ہے۔ جو بھی آگے جا کر سلطانز کا کنٹرول سنبھالے وہ انھیں اسی جذبے کے ساتھ سپورٹ کرے۔ میں بھی سٹینڈز میں آ کر سپورٹ کروں گا۔‘
لاہور قلندرز گذشتہ پی ایس ایل کی فاتح ٹیم تھیلاہور قلندرز سب سے قیمتی ٹیم قرار
پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ فرنچائز کے مالکان سے معاہدے کی تجدید منگل کو ہوئی اور سلطانز کے علاوہ تمام فرنچائزز کی جانب سے ارنسٹ اینڈ ینگ کی مقرر کردہ مارکیٹ ویلیو کو قبول کیا گیا۔
پیر کی شب پی سی بی نے بتایا تھا کہ پاکستان سپر لیگ کی تین ٹیمیں لاہور قلندرز، پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اگلے دس برس تک موجودہ فرنچائز مالکان کے پاس ہی رہیں گی۔
پیر کو پی سی بی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تینوں فرنچائزوں نے اگلے دس برس کے لیے تجدیدی معاہدوں پر دستخط کر دیے ہیں۔
لاہور قلندرز کی ٹیم کے مالکان عاطف رانا اور ثمین رانا ہیں جبکہ پشاور زلمی کی ٹیم جاوید آفریدی کی ملکیت ہے۔
پی سی بی نے اپنے بیان میں لاہور قلندرز کو ’سب سے قیمتی‘ ٹیم بھی قرار دیا ہے۔ تین مرتبہ پی ایس ایل کا ٹائٹل جیتنے والی ٹیم لاہور قلندرز کے مالک عاطف رانا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’دس سال پہلے میں نے لاہور کی فرنچائز اس لیے لی تھی کہ لاہور پاکستان کا دِل ہے اور مجھے دل جیتنا تھا۔‘
’اس سے بڑے اعزاز کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ میں ایک نمبر ون ٹیم بن گیا ہوں، سب سے قیمتی ٹیم بن گیا ہوں اور میں نے کراچی سمیت تمام فرنچائزوں کو پیچھا چھوڑ دیا ہے، جو کہ ایک کاروباری مرکز ہے اور ان کا ایک اپنا چینل بھی ہے۔‘
پی سی بی یا لاہور قلندرز نے یہ نہیں بتایا کہ نئی ویلیوایشن رپورٹ کے مطابق اس ٹیم کی موجودہ قدر یا مالیت کیا ہے۔
اس لیگ کی ابتدا کے وقت کراچی کنگز کی ٹیم پی ایس ایل کی سب سے مہنگی ٹیم تھی، تاہم کرکٹ ویب سائٹ کرک انفو کے مطابق اب لاہور اس ایونٹ کی سب سے مہنگی ٹیم ہے۔
پی ایس ایل میں اس وقت چھ ٹیمیں شامل ہیں تاہم کرکٹ بورڈ کی جانب سے تاحال ملتان سلطانز کے بارے میں معاہدوں کی تجدید کے حوالے سے معلومات نہیں دی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ پی سی بی نے 14 نومبر کو کہا تھا کہ اس کی جانب سے ’قواعد و ضوابط‘ کی پیروی کرنے والی فرنچائزوں کو اگلے دس برس کے لیے آفر لیٹرز ارسال کیے گئے ہیں جن میں نئی ’فیس‘ کی تفصیلات بھی درج کی گئی ہیں۔
ملتان سلطانز کے مالک علی ترین نے کچھ دن پہلے یہ تصدیق کی تھی کہ پی سی بی کی جانب سے ان سے فرنچائز کی تجدید کے لیے تاحال رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔
بی بی سی نے ملتان سلطانز کے مالک سے رابطہ نہ کرنے پر پی ایس ایل کی انتظامیہ سے موقف لینے کی کوشش کی ہے، تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
پی سی بی اور ملتان سلطانز کے مالک کے درمیان اختلافات
محمد رضوان پی ایس ایل کے پچھلے سیزن میں ملتان سلطانز کے کپتان تھےخیال رہے کہ دسمبر 2025 میں پی ایس ایل کی ٹیموں کے فرنچائز اونرشپ رائٹس کی 10 سالہ معیاد ختم ہو رہی ہے۔ موجودہ فرنچائز مالکان اپنی ٹیموں کے لیے دوبارہ بولی لگا سکتے ہیں تاہم ملتان سلطانز کے مطابق قانونی نوٹس میں علی ترین کو بلیک لسٹ کرنے کی دھمکی دی گئی یعنی اگر علی ترین بلیک لسٹ ہو گئے تو وہ دوبارہ پی ایس ایل فرنچائز کے مالک نہیں بن سکیں گے۔
26 اکتوبر کو پی سی بی نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ محسن نقوی نے ویلیوایشن رپورٹ کی بنیاد پر فرنچائزز کے ساتھ نئے معاہدے جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایت دی ہے۔
اس موقع پر محسن نقوی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’نئے معاہدے صرف اہل فرنچائزز کے ساتھ ہوں گے۔‘
گذشتہ مہینے ملتان سلطانز کے مالک علی ترین اور پی سی بی کے درمیان اختلافات اس وقت سامنے آئے تھے جب پی سی بی نے انھیں ایک قانونی نوٹس بھیجا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہعلی ترین کے لیگ کے حوالے سے بیانات لیگ کی ساکھ کو مسلسل نقصان پہنچا رہے تھے جبکہ یہ پی ایس ایل اور فرنچائز کے باہمی معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔
بابر اعظم پی ایس ایل کے پچھلے سیزن میں پشاور زلمی کے کپتان تھےقانونی نوٹس میں فرنچائز اور پی ایس ایل انتظامیہ کے معاہدے کی شقوں کا بھی حوالہ دیا گیا۔ نوٹس میں کہا گیا کہ علی ترین اپنے بیانات سے مسلسل ان شقوں کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔
علی ترین نے ایک ویڈیو میں اس نوٹس کو پھاڑ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پی ایس ایل کو قومی اثاثہ سمجھتے ہیں اور اس کے لیے اپنے شکوے دور کر کے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ نیا تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں جو شفافیت، تعاون اور اعتماد پر مبنی ہو۔
تاہم علی ترین نے 18 نومبر کو تصدیق کی تھی کہ پی سی بی نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے۔
علی ترین نے پی سی بی کی جانب سے تجدیدی لیٹر نہ بھیجنے پر قانونی راستہ اختیار کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پی سی بی اور پی ایس ایل کی مینجمنٹ ہم سے رابطہ نہیں کریں گے، اگر ہمیں لیٹر نہیں بھیجیں گے جو ہمارا حق ہے، اگر ہماری ای میلز کا جواب نہیں دیں گے اور ہمیں میٹنگز میں مدعو نہیں کریں گے تو ہمارے پاس کیا راستہ بچتا ہے سوائے قانونی کارروائی کے۔‘
’اگر انھوں نے مجھے خوش رکھا ہوتا تو میں آج 15 ارب کے نئے معاہدے پر دستخط کر رہا ہوتا، جو سیدھا جاتا قومی خزانے میں۔‘