کیا اسرائیلی حملے میں مارے جانے والے اسماعیل ہنیہ کے بیٹے عسکری کارروائیوں میں ملوث تھے؟

حماس کے سیاسی سربراہ کے بیٹوں اور ان کے بچوں کی ہلاکت کے بعد اسماعیل ہینہ کا کہنا ہے کہ اس سے مذاکرات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
Ismail Haniyeh, the Doha-based political bureau chief of the Palestinian Islamist movement Hamas, speaks to the press after a meeting with the Iranian foreign minister in Tehran in March 2024
Getty Images
اسماعیل ہنیہ کو سنہ 2017 میں حماس کے سیاسی سربراہ کے طور پر چنا گیا تھا

قاہرہ میں غزہ کی جنگ بندی کے لیے تازہ ترین مذاکرات کے آغاز سے قبل ہی بدھ کو حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے بیٹے اور پوتے پوتیاں غزہ میں ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔

اسماعیل کے تین بیٹے حضیم، عامر اور محمد اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ کے ساتھ رمضان کے اختتام پر مغربی غزہ میں الشاتی نامی مہاجر کیمپ کی جانب ایک کار میں سفر کر رہے تھے۔

اسماعیل ہنیہ کے پوتے پوتیوں میں تین بچیاں اور ایک بچہ شامل تھا۔ حماس کی جانب سے ان کے نام جاری کیے گئے ہیں جن میں مونا، امل، خالد اور رازان شامل ہیں۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی پر موجود حماس کے ملٹری ونگ کے تین آپریٹیو ختم کیے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اسماعیل ہنیہ کے بیٹے تھے اور یہ حماس کے عسکری ونگ کے ممبران تھے۔

اسماعیل ہنیہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ خبر اس وقت سنی جب وہ زخمی فلسطینیوں کی عیادت کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ کے ہسپتال میں موجود تھے۔

خیال رہے کہ حماس کے سربراہ کی رہائش قطر میں ہے۔

بعد میں ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے حماس کے مطالبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل نے جب سے حماس کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے تب سے اب تک ان کے خاندان کے 60 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے ذرائع کے مطابق اسماعیل ہنیہ کے 13 بیٹے ہیں جن میں سے کچھ دوحہ میں رہائش پذیر ہیں۔

bbc
BBC
ہانیہ کے تین بیٹے اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے

کیا ہنیہ کے بیٹے عسکری کارروائیوں میں ملوث تھے؟

زمین پر موجود تمام شواہد سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے بیٹوں میں سے کوئی بھی براہ راست عسکری کارروائیوں میں ملوث نہیں تھا۔

اگرچہ ان کے کچھ بیٹوں نے حماس کے عکسری ونگ، ازلدیں القاسم برگیڈ کے کیمپوں میں تربیت حاصل کی تھی تاہم وہ تنظیم میں نہ تو اعلی عہدوں پر تعینات تھے اور نہ ہی عسکری نوعیت کی کسی ذمہ داری میں متحرک تھے۔

جمعرات کو خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اسماعیل ہنیہ نے اس بات کی تردید کی کہ ان کے بیٹے جنگجو تھے۔

حماس کے امور پر گہری نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار یاسر ابو ہین کہتے ہیں کہ اگر وہ تینوں افراد عسکری کارروائیوں میں ملوث ہوتے تو وہ کبھی بھی کھلے عام گھوم نہ رہے ہوتے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے بجائے وہ خود کو چھپاتے بالکل ویسے ہی جیسے تنظیم کے اور لوگ چھپاتے ہیں۔ سرنگوں کا استعمال کرتے ہیں یا نامعلوم مقامات پر چلے جاتے ہیں۔ یہ جاننا اہم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ تھے اور رمضان کے اختتام پر گاڑی میں اپنی فیملی سے ملنے عید منانے کے لیے جا رہے تھے۔‘

تجزیہ کار یاسر ابو ہین کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے بیٹوں اور ان کے بچوں کی موت اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل اپنے فوجی اہداف کے حصول میں کنفوژن کا شکار ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ شاید اسرائیل کوشش کر رہا ہے کہ وہ ایسے اہداف کو نشانہ بنائے جن کی عسکری اہمیت نہ ہو کیونکہ وہ بہت اہم مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہا جیسا کہ حماس کے اہم لیڈروں کو پکڑنا یا پھر سات اکتوبر کے حملوں میں یرغمال بننے والے اسرائیلوں کی بازیابی۔

یہ بھی خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ القاسم برگیڈ کی جانب سے خان یونس کے مشرق میں زانا ٹاؤن میں اسرائیلی سپاہیوں کو مارے جانے کے دعوے کے بعد حالیہ حملہ اسرائیلی فوج کے مورال کو بحال کرنے کی ایک کوشش ہو۔

ابو ہین کا یہ بھی کہنا ہے کہ حملے میں انٹیلیجنس کوششوں اور خفیہ معلومات کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور لگتا ہے کہ بدھ کو ایک سویلین کار پر کیے جانے والے حملے میں اسے مدنظر نہیں رکھا گیا۔

اسرائیل حماس کے تمام لیڈروں کو ’دہشت گرد‘ سمجھتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ جنوری میں بیروت میں ہنیہ کے ڈپٹی صالح الاروری کی ہلاکت کے پیچھے بھی اسرائیل کا ہاتھ تھا۔

Hamas leader Ismail Haniyeh stands before the dead bodies of his three sons, along with of his two grandchildren, as people perform funeral prayers in Gaza City, Gaza, on 10 April 2024 (Photo by Ayman Alhesi/Anadolu via Getty Images)
Getty Images

ہنیہ کی بہن کی گرفتاری

اسرائیلی فوج نے اس سے پہلے بیرون ملک موجود حماس کے دیگر لیڈروں اور اسماعیل ہنیہ کے مورال کو کم کرنے کے لیے پرپیگنڈا کرنے کی کئی کوششیں کی ہیں۔

اسرائیلی جہازوں نے ماضی میں غزہ کی پٹی پر ہزاروں پرچیاں پھینکیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ فلسطینی لیڈر خوبصورت ہوٹلوں میں پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں اور انھوں نے فلسطینی عوام کو غزہ میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

اس کے علاوہ اسرائیل نے سوشل میڈیا پر بھی حماس کے خلاف ایسا مواد پھیلایا ہے۔

گذشتہ ہفتے اسرائیلی پولیس نے جنوبی اسرائیل کے نیگے نامی خطے میں موجود تل شیوا نامی گاؤں میں اسماعیل ہینہ کی بہن کو حراست میں لیا۔

ان کے گھر پر ریڈ کے دوران پولیس نے کہا کہ انھیں ایسے شواہد ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی بہن ایسے جرائم میں ملوث ہے جو اسرائیلی ریاست کے لیے خطرہ ہیں۔

پولیس کے بیان کے مطابق 54 سالہ صبا عبدالسلام ہنیہ تل شیوا میں حراست میں ہیں اور ان سے شن بت سکیورٹی ایجنسی تحقیقات کر رہی ہے۔

عبدالسلام البکر اسماعیل ہنیہ کے بڑے بیٹے ہیں اور وہ فلسطینی سیاسی امور میں اہم پوزیشنز پر فائز رہے ہیں۔ وہ نوجوانوں کے امور میںفلسطین کی سپریم کونسل کے ممبر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ فلسطین کی فٹبال ایسوسی ایشن جبرئیل رجب کے نائب سربراہ بھی رہے ہیں۔

اپنے عہدے کے دوران انھوں نے فلسطینی سیاست کے دو بڑے متحاربین الفتح اور حماس کے درمیان رابطوں کے لیے بھی کوشش کی۔

ان کا یہ خیال ہے کہ کھیل غزہ اور غرب اردن کی صورت میں موجود دو الگ اکائیوں میں قومی اتحاد کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

تاہم فروری میں ایشیا کپ کے دورانایران اور قطر کے میچ میں ان کی موجودگی کے بعد غزہ کے شہریوں میں ان کے خلاف غصہ دیکھا گیا۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ جنگ کے دوران ان کا میچ دیکھنے آنا غیر مناسب ہے۔

اسرائیلی میڈیا میشن خاص طور پر وہ جو اسرائیل کے دفاعی امور سے منسلک ہے، نے اس خبر کو مختلف پلیٹ فارمز پر جاری کیا۔ یہ حماس کے سیاسی دفتر اور ان کی تحریک کو تباہ کرنے کی ایک کوشش تھی۔

اسماعیل ہینہ نے سنہ2017 میں اس تنظیم کے اعلیٰ ترین عہدہ سنبھالا تھا اور غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی طرف سے عائد سفری پابندیوں سے گریز کرتے ہوئے ترکی اور قطر کے درمیان سفر کیا۔ وہ جنگ بندی کے حالیہ مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں اور انھوں نے حال ہی میں ایران اور روس کا سفر کیا ہے۔

اسماعیل ہنیہ کون ہیں؟

اسماعیل ہنیہ ایک فلسطینی سیاست دان، حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اور ایک بار دسویں فلسطینی حکومت کے وزیر اعظم تھے۔

ہنیہ کو اسرائیل نے 1989 میں گرفتار کیا اور تین سال تک قید میں رکھا، جس کے بعد انھیں حماس کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر مرج الظہور میں جلاوطن کر دیا گیا اور 1992 میں انھوں نے ایک سال وہاں گزارا۔

وہ اس وقت قطر میں مقیم ہیں اور غزہ چھوڑنے کے بعد طویل عرصے سے انھوں نے غزہ کا دورہ نہیں کیا ہے۔

اسماعیل ہانیہ نے سولہ سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہانیہ سے شادی کی، اور ان کے 13 بچے تھے - آٹھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں۔

ہانیہ کی بیٹیاں 1986 میں پیدا ہونے والی سینا، 1987 میں پیدا ہونے والی بتھینا، 1992 میں پیدا ہونے والی خولہ، 1998 میں پیدا ہونے والی لطیفہ اور 2004 میں پیدا ہونے والی سارہ ہیں۔

ان کے آٹھ بیٹے تھے: عبدالسلام 1981 میں پیدا ہوئے، حمام 1983 میں، وسام 1984 میں، معاذ 1985 میں، عاد 1994 میں، حازم 1994 میں پیدا ہوئے اور اسرائیلی حملے میں مارے گئے۔ عامر 1995 میں پیدا ہوا اور ایک اسرائیلی حملے میں مارا گیا اور محمد 1996 میں پیدا ہوا اور اسرائیلی حملے میں مارا گیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts