کیا گوگل مختلف ویب سائٹس کے کلکس ’چوری‘ کر رہا ہے؟

انٹرنیٹ پر موجود ویب سائٹس کی ایک بڑی تعداد اشتہارات کے ذریعے منافع کماتی ہیں، خاص طور پر وہ ویب سائٹس جو کہ معلومات اور مواد فراہم کرتی ہیں۔ یہ ایسی دنیا ہے جہاں کسی بھی ویب سائٹ کی زندگی یا موت کا فیصلہ صارفین کی تعداد کرتی ہے۔ ایسے میں گوگل کا موجودہ الگوریتھم کسی بھی کمپنی کے بند ہونے کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

گذشتہ ایک برس میں گوگل نے اپنے سرچ انجن میں تھوڑی تبدیلی کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے بھی نوٹ کیا ہوگا کہ جب آپ کوئی چیز سرچ کرتے ہیں تو پہلا نتیجہ جو آپ کے سامنے آتا ہے وہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کیا گیا ہوتا ہے۔

گوگل چیٹ بوٹس کی جانب سے دیے گئے ان جوابات کو ’اے آئی اوور ویوز‘ کا نام دیتا ہے۔ اکثر یہ بہت ہی زیادہ مددگار ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھار ان چیٹ بوٹس کی جانب سے لوگوں کو پتھر اور گوند کھانے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔

صرف یہی نہیں اے آئی اوور ویوز آپ کی مستقبل کی سرگرمیوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔

رواں برس انٹرنیٹ استعمال کرنے والے 900 امریکی صارفین نے پیو ریسرچ سینٹر کو اپنی براؤزنگ ہسٹری کی نگرانی کرنے کی اجازت دی تھی۔

پیو کے ڈیٹا لیب کے ڈائریکٹر ایرون سمتھ کہتے ہیں کہ ’یہ صارفین سرچ کی صورت میں منظرِ عام پر آنے والے مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائے گئے خلاصے پر کم ہی کلک کرتے تھے اور اکثر اپنا براؤزنگ سیشن بھی پوری طرح سے بند کر دیتے ہیں۔‘

ایک نئے تحقیقی تجزیے کے مطابق گوگل استعمال کرنے والے صارفین کا دیگر صارفین کے مقابلے میں اے آئی کی فراہم کردہ ویب سائٹس پر کلک کرنے کا امکان دو گُنا کم ہے۔ 26 فیصد صارفین کہتے ہیں کہ وہ اے آئی کی فراہم کردہ معلومات دیکھ کر براؤزر ہی بند کر دیتے ہیں۔

یہ ’بڑی بات‘ ہے کیونکہ لوگ ایک برس میں پانچ کھرب مرتبہ گوگل سرچ پر جاتے ہیں اور یہیں سے تقریباً تمام صارفین کی آن لائن سرگرمیوں کی شروعات ہوتی ہے۔

انٹرنیٹ پر موجود ویب سائٹس کی ایک بڑی تعداد اشتہارات کے ذریعے منافع کماتی ہیں، خاص طور پر وہ ویب سائٹس جو کہ معلومات اور مواد فراہم کرتی ہیں۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جہاں کسی بھی ویب سائٹ کی زندگی یا موت کا فیصلہ صارفین کی تعداد کرتی ہے۔ ایسے میں گوگل کا موجودہ الگوریتھم کسی بھی کمپنی کے بند ہونے کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔

ایمسیو نامی مارکیٹنگ ایجنسی کی سربراہ للی رے کہتی ہیں کہ ’زیادہ تر ویب سائٹس اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے گوگل ٹریفک پر انحصار کرتی ہیں۔‘

گوگل
Getty Images
انٹرنیٹ پر موجود ویب سائٹس کی ایک بڑی تعداد اشتہارات کے ذریعے منافع کماتی ہیں

’تاہم اے آئی اوور ویو کی وجہ سے ٹریفک میں کمی آ رہی ہے اور اس کے سبب ویب سائٹس کے منافع میں 20، 30 یا 40 فیصد بھی کمی آ رہی ہے۔ اس کا اثر لوگوں پر پڑ رہا ہے اور وہ اچھے معیار کا مواد بنانے سے بھی گریز کر رہے ہیں۔‘

گوگل آئندہ برسوں میں ایسا فیچر متعارف کروانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے جو روایتی سرچ کے طریقے کو بدل کر رکھ دے گا۔

للی رے اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ گوگل کی ایسی پالیسی کا انٹرنیٹ پر بُرا اثر پڑے گا۔ کچھ لوگوں کو تو یہ بھی خوف ہے کہ کہیں پوری ویب ہی تباہ نہ ہوجائے۔

تاہم گوگل ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیتا ہے۔

کمپنی کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم روزانہ اربوں کلکس ویب سائٹس کو فراہم کرتے ہیں اور ہم نے ویب ٹریفک پر اب تک کوئی بڑی کمی نہیں دیکھی۔‘

پیو ریسرچ کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’اس تحقیق کا طریقہ کار غلط ہے اور اس سے سرچ ٹریفک کو نہیں سمجھا جا سکتا۔‘

دوسری جانب پیو کا کہنا ہے کہ اسے اپنی تحقیق پر پورا اعتماد ہے۔ ایرون سمتھ کہتے ہیں کہ ’ہماری فائنڈنگز دیگر آزاد کمپنیوں کی جانب سے کی گئی ریسرچ سے مطابقت رکھتی ہیں۔‘

دیگر رپورٹس کے ذریعے بھی یہ معلوم ہوا ہے کہ اے آئی اوور ویوز کے سبب سرچ ٹریفک میں 30 سے 70 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی۔

للی رے کہتی ہیں کہ انھوں نے سینکڑوں ویب سائٹس سے لیے گئے یہ اعداد و شمار ذاتی طور پردیکھے ہیں۔

لیکن گوگل نے بی بی سی کو بتایا کہ ہمیں اس ریسرچ کو نظر انداز کر دینا چاہیے کیونکہ یہ جانبدار ڈیٹا اور بے معنی کہانیاں ہیں۔

کمپنی کا مزید کہنا ہے کہ ویب ٹریفک کے کم یا زیادہ ہونے کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں اور اے آئی اوور ویوز صارفین کو معلومات کے دیگر ذرائع سے نہ صرف جوڑتا ہے بلکہ انھیں نئی ویب سائٹس دریافت کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔

تاہم گوگل کا اپنا اے آئی بوٹ بھی کمپنی کے پی آر ڈیپارٹمنٹ سے اتفاق کرتا ہوا نہیں نظر آتا۔ اگر آپ گوگل جیمینائی سے اس متعلق سوال پوچھیں تو وہ کہتا ہے کہ اے آئی اوور ویوز ویب سائٹس کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

للی رے کے مطابق اس بات کے ثبوت بالکل واضح ہیں کہ ’گوگل اس معلومات کو نیا رُخ دینے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ سچ کو چھپایا جا سکے کیونکہ اس سے لوگ گھبرا سکتے ہیں۔‘

گوگل
Getty Images
گوگل آئندہ برسوں میں ایسا فیچر متعارف کروانے کا ارادہ بھی رکھتا ہے جو روایتی سرچ کے طریقے کو بدل کر رکھ دے گا

تاہم گوگل کا کہنا ہے کہ وہ شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم ہے۔

گوگل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’لوگ مصنوعی ذہانت کی طرف جا رہے ہیں اور اے آئی فیچر لوگوں کو مزید سوالات کرنے میں مدد دیتا ہے اور انھیں نئی ویب سائٹس سے جُڑنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔‘

لیکن للی رے کہتی ہیں کہ گوگل بڑے معاملے پر توجہ ہی نہیں دے رہا۔

’گوگل کہہ سکتا ہے کہ کوئی بھی اب دیگر ویب سائٹس پر کلک نہیں کر نا چاہتا لیکن دراصل وہ دوسروں کی سخت محنت سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔‘

للی رے مزید کہتی ہیں کہ ’وہ اچھا مواد بنانے والوں سے ان کے کلکس چھین رہے ہیں اور اسی مواد کو صارفین کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔‘

وہ الزام عائد کرتی ہیں کہ اے آئی اوور ویوز اکثر چیزوں کو بالکل غلط طریقے سمجھتے ہیں۔

’نہ صرف اس طریقے سے ویب سائٹس کے کلکس چُرائے جا رہے ہیں بلکہ لوگوں سے دیگر ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی آزادی بھی چھینی جا رہی ہے۔‘

تاہم گوگل کا کہنا ہے کہ اے آئی اوور ویوز کے ذریعے دیے گئے جوابات حقائق پر مبنی ہوتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow