لاہور میں یکم مارچ 1933 کو ہیجان کی سی کیفیت تھی کیونکہ اُس روز اپنے وقت کے معروف وکیل کے ایل گابا نے شاعر علامہ محمد اقبال کی موجودگی میں اسلام قبول کیا تھا۔
لاہور میں یکم مارچ 1933 کو ہیجان کی سی کیفیت تھی کیونکہ اُس روز اپنے وقت کے معروف وکیل کے ایل گابا نے شاعر علامہ محمد اقبال کی موجودگی میں اسلام قبول کیا تھا۔
لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں کو پہلی بار بجلی فراہم کرنے والے کاروباری شخص اور بینکار لالا ہرکشن لال گابا کے سنہ 1899 میں پیدا ہونے والے بڑے بیٹے کنھیا لال گابا (کے ایل گابا) کا بچپن، اُن کی اپنی لکھی سوانح حیات کے مطابق، مادی آسائشوں، لاہور کی سیاست اور اعلیٰ طبقے کی محفلوں سے بھرپور تھا۔
انگریزی سکولوں سے تعلیم یافتہ کے ایل گابا کی تحریریں نوعمری ہی میں ’سپِنکس جرنل‘ اور ’ہندوستان ریویو‘ میں شائع ہونے لگی تھیں۔
برطانیہ سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرسٹر کنھیا لال گابا لاہور ہائیکورٹ میں وکالت کرنے لگے لیکن انھوں نے پورا نام کم ہی استعمال کیا تھا۔ وہ اپنا نام کنھیا لال گابا کے بجائے کے ایل گابا ہی لکھتے تھے۔
اسلام قبول کرنے پر اقبال نے اُن کا نام خالد لطیف تجویز کیا تو بھی انگریزی میں ابتدائی حروف ’کے ایل‘ ہی رہے۔
گابا کی اہلیہ حُسن آرا مسلمان تھیں۔ اسلام قبول کرنے سے دس قبل یعنی سنہ 1923 میں جب اُن کی حُسن آرا کی شادی ہوئی تو اخبارات میں اسے خوب پذیرائی ملی۔ گابا اور حُسن آرا کے بچوں کے نام راشد اور عفت رکھے گئے۔
معروف ہندو وکیل کے قبولِ اسلام کا واقعہ
’یکم مارچ 1933 کو کے ایل گابا کے اسلام قبول کرنے موقع پر بادشاہی مسجد میں 10 ہزار سے زائد افراد جمع تھے‘کے ایل گابا کی اپنی کتاب ’فرینڈز اینڈ فوز‘ کے ایک باب ’اسلام‘ میں اس واقعے کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ اسی سے علم ہوتا ہے کہ مقامی اخبارات نے اس واقعے کو تصاویر کے ساتھ شائع کیا اور اس خبر کی وجہ سے اُس روز کے اخبارات ’دھڑا دھڑ فروخت ہوئے۔‘
اس میں لکھا ہے کہ ’اخبارات کی اطلاعات کے مطابق بادشاہی مسجد میں ایک نئے (مسلم) بھائی کو دیکھنے اور سننے کے لیے 10 ہزار سے زائد افراد جمع تھے۔ اُن میں شہر کے سرکردہ افراد بھی شامل تھے جن کی سربراہی سر محمد اقبال اور سر فیروز خان نون کر رہے تھے۔‘
گابا لکھتے ہیں کہ نمازِ جمعہ کے بعد جلسے میں ’خیرمقدم پر اظہارِ تشکر کے بعد میں نے مذہب کی تبدیلی کی وجوہات یوں بیان کیں کہ اسلام واضح، سادہ اور عام فہم مذہب ہے۔ یہ جمہوری روایات اور مساوات کا مظہر ہے، کسی ذات پات یا چھوت چھات کو تسلیم نہیں کرتا، اس میں عورت کو حقوق اور آزادی بخشی گئی ہے اور اس کے مرد کے ساتھ تعلقات کی بنیاد ایک واضح معاہدہ ہے۔‘
اپنی کتاب ’دی پیپل نیکسٹ ڈور: دی کیوریئس ہسٹری آف انڈیاز ریلیشنز ود پاکستان‘ میں سابق انڈین ہائی کمشنر برائے پاکستان ٹی سی اے راگھون نے بیان کیا ہے کہ گابا ’کٹر مذہبی نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود اپنے نئے مذہب سے مخلص اور اس کے لیے پُرعزم تھے۔‘
گابا کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد میری پوری زندگی حتی الوسع اس بات کے لیے وقف رہی کہ میں کسی نہ کسی درجے میں مسلمان کمیونٹی کی خدمت کر سکوں۔‘
گابا نے مقدمات میں مسلم مؤکلین کی نمائندگی کی اور سنہ 1933 میں مسلم لیگ کے ایک امیدوار کو ایک نہایت سخت مقابلے میں شکست دے کر ہندوستانی قانون ساز اسمبلی کی نشست جیت لی۔
پہلی کتاب کی آمدن سے لاہور نہر پر بنگلہ بنایا
اگلے سال یعنی سنہ 1934 میں گابا نے پیغمبرِ اسلام کی سیرت پر ایک کتاب 'دی پرافٹ آف دی ڈیزرٹ' لکھی جس کا اردو میں عنوان ’پیغمبرِ صحرا‘ تھا۔
خود گابا نے تو اسے 'ایک سادہ انسان کی طرف سے، سادہ لوگوں کے لیے لکھی جانے والی ایک سادہ کتاب' قرار دیا لیکنآزادی کے ایک رہنما مولانا شوکت علی نے کہا کہ ’میں ان ہاتھوں کا بوسہ لینا چاہتا ہوں جنھوں نے یہ کتاب تحریر کی۔‘
کلیمنٹ کے جونز نے لکھا کہ ’اگر کوئی کتاب لوگوں کو دینِ اسلام کی طرف راغب کر سکتی ہے تو یہی ہے۔‘
گابا نے لگ بھگ دو درجن کتابیں اور بھی تحریر کیں۔
لکھاری خوشونت سنگھ کے مطابق اُن کی کتاب ’انکل شیم‘ کیتھرین مایو کی ’مدر انڈیا‘ کا جواب تھی۔ ’جس طرح مایو نے ہندوستان کو بدنام کیا، گابا نے مایو کے وطن امریکہ کو بدنام کیا۔‘
راگھون لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ایک ہی سال میں بیس بار شائع ہوئی اور گابا کی یادداشت کے مطابق ’چھ ہندسوں سے کہیں زیادہ (یعنی ایک لاکھ سے زیادہ) کئی بار‘ فروخت ہوئی۔ گابا کے بقول سنہ 1929 میں انڈین نیشنل کانگریس کے لاہور اجلاس کے دوران تقریباً 20 ہزار پیپر بیک نسخے فروخت ہوئے۔
اس کتاب سے ہونے والی آمدنی نے گابا کو پہلی بار دولت مند بنا دیا اور انھوں نے لاہور میں نہر کے کنارے اپنے لیے ایک شاندار بنگلہ تعمیر کرایا۔
خوشونت سنگھ کے مطابق اس کے بعد انھوں نے ایک اور بیسٹ سیلر ’ہز ہائی نس‘ لکھی جو ہندوستانی راجاؤں کی زندگی پر تھی۔ کتاب ایک یادگار جملے سے شروع ہوتی ہے: ’کچھ لوگ اپنی صبح ایک کپ چائے سے شروع کرتے ہیں، کچھ صبح کا اخبار پڑھ کر، ہز ہائی نس ایک کنواری سے۔ یہ ہمارے مہاراجاؤں کی جنسی عیاشیوں کا ایک سکینڈل بھرا بیان تھا۔‘
گابا خاندان پر زوال
گابا کے اپنے والد لالا ہرکشن لال گابا سے تعلقات کشیدہ ہی رہے، کبھی ذاتی اور کبھی کاروباری وجوہات کی بنیاد پر۔
لیکن راگھون لکھتے ہیں کہ جب لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ڈگلس ینگ نے گابا کے والد کے کاروباری اداروں کے خلاف عدالتی تحقیقات کا حکم دیا، جو ایک ’انتقامی کارروائی‘ تھی، اور انھیں قید کیا تو گابا نے جج پر تنقید کرتے ہوئے ایک کتاب لکھی جس میں ینگ کی گابا خاندان کے خلاف اُن کے مبینہ جانبدارانہ فیصلوں کا پردہ فاش کیا گیا۔
اس کتاب کا عنوان ’سر ڈگلس ینگز میگنا کارٹا‘ تھا۔ اس کتاب کی بنیاد پر انھیں توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دے کر جیل بھیج دیا گیا۔
منی کپور نے اپنے ایک مضمون ’دی بکس دے روٹ‘ میں لکھا ہے کہ یہ کتاب کبھی شائع نہ ہوئی لیکن اس کی نقول ہندوستان اور لندن کے سیاسی رہنماؤں میں گردش کرتی رہیں اور ینگ کو استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا گیا۔ اس معاملے میں عوامی حمایت کے باوجود گابا کو شدید مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
گابا اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1936 کی گرمیوں تک والد کو ہائیکورٹ سے توہینِ عدالت کے الزام میں غیر معینہ مدت کی سزا ہو چکی تھی۔ اُن کا مقدمہ چیف جسٹس ڈگلس ینگ اور جسٹس منرو نے سُنا تھا۔ (چھوٹے بھائی) جیون لال کو انشورنس کمپنی کے معاملات میں پانچ سال قید کی سزا ہو چکی تھی۔‘
’میں پانچ سال پہلے ہی کاروبار سے الگ ہو چکا تھا اور مرکزی اسمبلی کا رکن تھا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ میں بچ نہیں سکتا۔ میں لالا ہرکشن لال کا بڑا بیٹا تھا۔‘
’مئی 1936 میں سر ڈگلس ینگ نے کمپنیز ایکٹ کے تحت پیپلز بینک کے ڈائریکٹروں کا عوامی معائنہ شروع کیا اور میں اُن کی فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر تھا۔ یہ معائنہ کئی دن جاری رہا، اس نے بہت زیادہ عوامی توجہ حاصل کی اور تقریباً ہر روز عدالت کھچا کھچ بھری رہتی۔‘
’مبصرین کے مطابق میں ایک اچھا گواہ ثابت ہوا جس کی یادداشت غیر معمولی تھی۔ ایک موقع پر جسٹس ینگ نے کہا کہ لگتا ہے میرے پاس دو دماغ ہیں، ایک جوابات سوچنے کے لیے اور دوسرا جواب دینے کے لیے۔‘
’ایک دن چیف جسٹس ینگ نے اصرار کیا کہ میں صرف ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ میں جواب دوں۔ کچھ دیر کی جھڑپ کے بعد مجھے انھیں کہنا پڑا: ’میرے محترم جج، کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟ کیا آپ نے اپنی بیوی کو مارنا بند کر دیا ہے؟ براہِ کرم ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ میں جواب دیں۔‘
’یہ سُن کر وہ خاموش ہو گئے اور پوری عدالت میں قہقہے گونج اُٹھے۔‘
’22 جولائی 1936 کو مجھے لاہور کی سینٹرل جیل میں ڈال دیا گیا جہاں والد اور بھائی پہلے ہی موجود تھے۔‘
’میری گرفتاری پہلے ہی ہو جاتی اگر شملہ سے حکومتِ ہند کی ایک ٹیلیفون کال چیف جسٹس ینگ کو نہ جاتی جو کہ میری وائسرائے کو لکھی گئی شکایتی چٹھی کے نتیجے میں تھی۔‘
’گو کہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ ہمارے خاندان کے ساتھ فراخ دلی سے پیش آئے اور کئی سال بعد ہم تینوں والد، جیون لال اور میں ایک ساتھ تھے۔ (ہم) دکھ کی حالت میں پہلے سے زیادہ خوش تھے۔ والد پہلے سے زیادہ کُھل کر بات کرتے اور جیون لال اپنی بدقسمتی کو حیرت انگیز خوش دلی سے برداشت کرتا۔‘
’بدقسمتی سے میں اتنا خوش دل نہ رہ سکا۔ شاید اس لیے کہ میری بیوی اور تین کم سن بچے اب اپنا بندوبست خود کرنے پر مجبور تھے۔ ایک دن میں زار و قطار رویا۔‘
گابا لکھتے ہیں کہ وہ نومبر تک ضمانت پر باہر نہ آ سکے کیونکہ پولیس نے مناسب ضمانت دہندگان کا بندوبست کرنا انتہائی مشکل بنا دیا تھا۔
’ضمانت کی رقم ڈیڑھ لاکھ روپے مقرر ہوئی تھی۔ ایک غیر معمولی واقعہ نہ ہوتا تو شاید میں مزید طویل عرصے تک اندر رہتا۔‘
غیر معمولی واقعہ
گابا نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ سیالکوٹ کے ایک مسلمان ٹھیکیدارایک دن جیل میں ان سے ملنے آئے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن (ٹھیکیدار) کے ’خواب میں پیغمبر اسلام نے حکم دیا ہے کہ لاہور جا کر میری رہائی کا بندوبست کریں۔ وہ پہلے مجھ سے ملے، پھر سیدھا عدالت میں گئے اور مجسٹریٹ کے سامنے پوری ضمانتی رقم نقد میز پر رکھ دی۔ مجسٹریٹ نے متنبہ کیا کہ میرا مفرور ہونا ممکن ہے اور ان کے پیسے ضائع ہو سکتے ہیں مگر انھوں نے کہا ’اگر ضائع ہوئے تو کوئی بات نہیں، خدا مجھے پھر دے گا۔‘
’22 دسمبر 1937 کو تین مقدمات کے بعد میں باعزت بری ہو گیا۔ لیکن اس سے پہلے والد اپنی زندگی کا سفر مکمل کر چکے تھے۔‘
گابا اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں: ’لالا ہر کرشن لال (والد) کی زندگی کا بہترین حصہ ایک وسیع و عریض محل جیسے گھر کے ایک چھوٹے کمرے میں گزرا، پرانے پشمینے کے چوغے میں۔ اپنے دور کے سب سے نمایاں بھکاریوں کی تصویروں سے گھرا ہوا۔‘
’وہ سادگی سے زندگی گزارتے تھے مگر فراخ دلی سے دعوتیں دیتے تھے۔ اپنی ذہانت سے وائسرائے کو حیران کر دیتے اور اپنے ہیروں جڑے بٹنوں کی چمک سے وائس رائینز کو۔ وہ سوچتے مانچسٹر اور برمنگھم کے پیمانے پر تھے مگر کام سوَدیشیپیمانے پر کرتے۔‘
1934 میں سر ڈگلس ینگ کے عہدہ سنبھالنے کے ساتھ ہی لالا ہرکرشن لال کے کیریئر کا اختتام شروع ہو گیا۔ ان کی زندگی عدالت کی توہین، دیوالیہ پن، اور رسیور شپ کی سزاؤں سے بھر گئی۔ اس کے باوجود لالا ہرکرشن لال نے اس طویل جدوجہد میں اپنے عزم اور حوصلے کو قائم رکھا۔‘
سر ڈگلس ینگ نے ان سے سب کچھ چھین لیا تھا، سوائے ان کی شہرت کے۔ ’سب سے بڑے ناکام کہلانے کے باوجود لالا ہرکرشن لال اپنے دور کی ایک بڑی شخصیت بن گئے۔‘
اپنی سوانح عمری میں گابا نے لکھا: ’والد اور میری طویل اور غیر معینہ قید کے اور بھی نتائج نکلے۔ ہمارا مکان نیلام ہو گیا، اس کا سارا سامان بھی نیلام کر دیا گیا۔ میں نے جو (لاہور میں) نہر کنارے خوبصورت بنگلہ تعمیر کیا تھا، وہ بھی نیلام ہوا اور جیون لال کا مکان بینک کے لیکویڈیٹر نے قبضے میں لے لیا۔ ان کی بیوی الزبتھ اور بچے یورپ چلے گئے۔‘
’یوں 1937 کے آغاز میں خاندان غربت، تقسیم اور بکھراؤ کا شکار تھا۔ خاندان کی اس تباہی میں صرف میں ہی اس طوفان سے بچ پایا۔‘
راگھون کے مطابق گابا کو خطرات کا بخوبی ادراک تھا۔ ’قیمت ادا کرنی پڑے گی، اس میں کبھی شک نہیں رہا تھا‘ لیکن ان کے الفاظ میں ’جیسے میں ڈگلس ینگ اور ان کے ججوں کے فیصلوں سے بچ گیا، کیا وہ میرے فردِ جرم سے بچ پائیں گے؟‘
گابا کو توہینِ عدالت پر جیل جانا پڑا لیکن ان کی کتاب لندن میں سیکریٹری آف سٹیٹ فار انڈیا تک پہنچ گئی۔ جب انھوں نے اپنی سزا کے خلاف پریوی کونسل میں اپیل دائر کی تو اپیل منظور نہ ہوئی۔ مگر وائسرائے نے چیف جسٹس کو استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا۔ ’جیل سے نکلتے ہی گابا پورے ہندوستان میں اس برطانوی چیف جسٹس کو ہٹانے پر ایک ہیرو بن گئے۔‘
قیامِ پاکستان پر انڈیا منتقل اور غربت میں وفات
قیامِ پاکستان کے وقت گابا نے محسوس کیا کہ مسلم لیگ کی مخالفت اُن کے سیاسی مستقبل کو نقصان پہنچائے گی۔ اس لیے وہ انڈیا منتقل ہو گئے۔
خوشونت سنگھ لکھتے ہیں کہ تقسیم سے کچھ مہینے بعد گابا سے ان کی شملہ میں ملاقات ہوئی۔ ’ان کے ساتھ اس وقت حیدرآباد کی ایک نہایت حسین برقع پوش بیگم تھیں۔ کچھ عرصے بعد وہ بیگم غائب ہو گئیں اور ان کی جگہ ایک اور خاتون آئیں۔ پھر ان کے بعد ایک اور۔‘
’کے ایل گابا بمبئی میں بس گئے مگر اُن کا وکالت کا کام کبھی ترقی نہ کر سکا۔ وہ بڑے فلیٹ سے چھوٹے فلیٹ اور پھر لاجنگ ہاؤس تک منتقل ہوئے۔ آمدنی بڑھانے کے لیے انھوں نے مضامین اور کتابیں لکھنے کی کوشش کی۔ کے ایل بتدریج غربت میں ڈوب گئے۔‘
لیکن راگھون کے مطابق گابا کا بمبئی میں وکالت کا پیشہ 1960 کی دہائی تک خوب چلا۔ ساتھ ہی انھوں نے مختلف قانونی مقدمات یا سب سے زیادہ فروخت ہونے والے موضوعات پر سنسنی خیز کتابوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ تاہم وہ لاہور جیسی شہرت دوبارہ حاصل نہ کر سکے۔ ان کی کتابیں البتہ فروخت ہوتی رہیں۔
سنہ 1975 میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر وہ ایک ماہ کے دورے پر پاکستان آئے۔
راگھون کے مطابق اس سے پہلے 1973 میں ان کی کتاب ’پیسِو وائسز‘ شائع ہو چکی تھی۔ یہ سنہ 1947 کے بعد انڈیا میں مسلمانوں کے بارے میں ایک مطالعہ تھی اور اس میں زندگی کے مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی کم نمائندگی اور ان کے ساتھ ہونے والے امتیاز کو اجاگر کیا گیا تھا۔
یہ کتاب انڈیا میں زیادہ اثر نہ ڈال سکی مگر پاکستان میں جلد دوبارہ شائع ہوئی اور اس کا اُردو ایڈیشن تقریباً پندرہ ہزار کی تعداد میں چند دنوں میں فروخت ہو گیا۔
’حسبِ عادت انھوں نے پاکستان میں گزرے ایک مہینے پر بھی ایک کتاب لکھ ڈالی جس کا اختتام اس امید پر کیا کہ شملہ معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔‘
خوشونت سنگھ لکھتے ہیں کہ اپنی آخری عمر میں کے ایل کو ٹوپی اور پھٹے پرانے کپڑوں میں فلورا فاؤنٹین کی طرف آہستہ آہستہ چلتے دیکھا جا سکتا تھا جہاں وہ ایشیاٹک سوسائٹی میں سارا دن رسائل پڑھتے اور کرسیوں پر سوتے۔
’میں نے انھیں آخری بار پارسی آتش کدے کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے دیکھا۔ کاغذ کے کپ سے بھنے ہوئے چنے کھاتے ہوئے۔‘
’یہ ایک افسوسناک منظر تھا۔ لکڑی کے کیبن سے وائٹ ہاؤس تک کی کہانی کا الٹ۔ پنجاب کے شاندار محل سے فیروز شاہ مہتا روڈ کے فٹ پاتھ تک کا سفر۔‘
سنہ 1981 میں کے ایل گابا کی وفات پر خشونت سنگھ نے لکھا: ’پچاس سال پہلے کے ایل گابا کے جنازے کے پیچھے آدھا لاہور ہوتا۔ پچھلے ہفتے ان کی موت پر درجن بھر بھی غمگسار نہ تھے۔‘