وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بارش کے دوران شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ ان کے ہمراہ صوبائی وزراء شرجیل میمن اور سعید غنی بھی موجود تھے۔ ترجمان وزیراعلیٰ کے مطابق وزیراعلیٰ نے شاہراہِ فیصل سے دورے کا آغاز کیا اور فریئر ہال پہنچے جہاں میئر کراچی نے انہیں برساتی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے نرسری نالے کا معائنہ کیا اور نالے کے بہاؤ کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر میئر کراچی نے نالوں کی صفائی اور نکاسی کے اقدامات پر انہیں آگاہ کیا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بارش ہوگی تو پانی جمع ہوگا اور جب بارش رُکے گی تو پانی نکل جائے گا۔ ہماری کوتاہیاں ضرور ہوں گی لیکن حکومت کام کررہی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہورہے ہیں، پچھلے ہفتے کے پی کے اور گلگت میں بارشوں سے 400 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ لاہور سمیت دنیا کے بڑے شہروں میں بھی بارشوں نے تباہی مچائی۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ پوری انتظامیہ، بلدیاتی اداروں کا عملہ اور وہ خود سڑکوں پر موجود ہیں اور عوام کی مدد کررہے ہیں۔ آج عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا تاکہ لوگ گھروں پر رہیں لیکن شہری غیر ضروری طور پر باہر نکلے ہوئے ہیں۔ اگر بارش مزید ہوئی تو انہیں مشکلات کا سامنا ہوگا۔
مزید گفتگو میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی میں ایک اتھارٹی ہونی چاہیے لیکن اس کے بھی اپنے مسائل ہیں۔ واٹر بورڈ پہلے حکومت سندھ کے پاس تھا اب کے ایم سی کو دیا گیا ہے۔ ورلڈ بینک نے 1.6 بلین ڈالر کی فیسیلٹی رکھی ہے جس میں سے ہمیں 100 بلین روپے ملے ہیں انہی فنڈز سے سیوریج ریفارمز اور دیگر اقدامات پر کام ہورہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی کے نکاسی آب کا نظام اتنی بھاری بارش کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا۔ اگر 100 ملی میٹر بارش برداشت کرنے والا نظام بنانا ہے تو پورا شہر دوبارہ کھودنا ہوگا۔
وزیراعلیٰ نے ہدایت دی کہ تمام بلدیاتی ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں اور ٹاؤنز کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ لوکل باڈیز، پولیس اور انتظامیہ سب مل کر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ شہر میں مختلف ادارے روڈ کٹنگ کی اجازت دیتے ہیں جس کی وجہ سے بارش کے دوران مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اب ہم ایک روڈ کٹنگ اتھارٹی قائم کر رہے ہیں جو اس عمل کو ریگولیٹ کرے گی۔
دوسری جانب امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے گلشن اقبال ٹاؤن آفس کے باہر گزشتہ روز بارش کے بعد پیدا شدہ سنگین صورتحال کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی 40 سالہ شراکت نے شہر کے اداروں کو تباہ کیا۔
وفاق بھی ذمہ داری سے فرار اختیار کر رہا ہے، شہر کی اس صورتحال میں ہمارا وفاق سے مطالبہ ہے کہ کراچی کو فوری 500 ارب روپے کا ترقیاتی پیکیج دیا جائے جبکہ صوبائی حکومت شہر کے تمام ٹاؤنز کو 2 ارب روپے مہیا کرے تاکہ بارشوں کے بعد کی صورتحال پر قابو پایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز ہونے والی بارش نے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر کے تمام دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ صرف 3 سے 6 انچ بارش کے نتیجے میں پورا شہر ڈوب گیا، قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور کراچی کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق بارش کے دوران 11سے زائد شہری جاں بحق ہوئے، کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اور دیگر ادارے مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ نالوں کی صفائی کے نام پر حکمرانوں نے عوام کو دھوکا دیا۔
حکمران عوام کو بہلاوے میں رکھنے کے لیے غیر سنجیدہ بیانات دیتے ہیں کہ زیادہ بارش ہوگئی اس لیے پانی جمع ہوا یا سمندر نے پانی قبول نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ان کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ کراچی کے شہری برسوں سے ان ہی جماعتوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔
منعم ظفر خان نے مزید کہاکہ ایم کیو ایم کے وزراء، اراکین اسمبلی مفادات سمیٹنے میں مصروف ہیں جبکہ ایم کیو ایم کا گورنر عوامی خدمت کے بجائے ناچ گانے میں مصروف ہے۔ وفاق اور صوبے کی کشمکش میں عوام کو رلنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے کراچی کے مسائل کو صوبائی حکومت کا مسئلہ قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے جان چھڑانے کی کوشش کی جو شرمناک رویہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی چالیس سالہ شراکت داری نے شہر کے اداروں کو تباہ کر دیا ہے۔ نہ ایم کیو ایم کا میئر کارکردگی دکھا سکا اور نہ ہی پیپلز پارٹی کا میئر کوئی بہتری لا سکا۔ دونوں جماعتوں نے اداروں کو صرف لوٹ مار اور سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ بارش کے بعد کراچی کے تمام علاقے ڈوب گئے۔ اورنگی، کورنگی، لانڈھی، لیاقت آباد، گلشن اقبال، لیاری اور شارع فیصل سمیت ہر علاقہ زیر آب رہا۔ یہاں تک کہ وی وی آئی پی روٹ شارع فیصل پر بھی رات گئے تک ٹریفک جام اور گاڑیوں کی قطاریں لگی رہیں۔ لوگ اپنی گاڑیاں اونچی جگہوں پر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اسکول کے طلبہ اور دفاتر سے نکلنے والے شہری سڑکوں پر پھنسے رہے۔