سپریم کورٹ نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی 9 مئی کے مقدمات میں درخواست ضمانت منظور کرلی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ سنایا۔
سماعت کے آغاز پر بینچ کی تشکیل میں تبدیلی کی گئی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی جگہ جسٹس حسن اظہر رضوی کو شامل کیا گیا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی سے استفسار کیا کہ کیا ضمانت کیس میں حتمی فیصلہ دیا جاسکتا ہے اور کیا سازش سے متعلق کیسز میں پہلے بھی ضمانتیں دی گئی ہیں؟
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں سازش کے الزام والے مقدمات میں بھی ضمانت منظور کی ہے، پراسیکیوٹر کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ عمران خان کا کیس ان مثالوں سے مختلف ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ ضمانت کے کیسز میں دی گئی آبزرویشنز عارضی نوعیت کی ہوتی ہیں اور ان کا ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
پراسیکیوٹر نے دلائل میں بتایا کہ 1996، 1998 اور 2014 کے عدالتی فیصلوں میں یہی اصول اپنایا گیا تھا کہ ضمانت میں دی گئی آبزرویشنز عبوری نوعیت کی ہوتی ہیں۔ تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ اب تک جتنے بھی سازش کے کیس آئے ان میں ضمانت منظور ہوئی ہے۔
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس ماضی کے تمام ایسے کیسز موجود ہیں جہاں سازش کے الزام کے باوجود ضمانت دی گئی۔ چیف جسٹس نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ وہ ایسا کوئی عدالتی فیصلہ پیش کریں جس میں سازش کے الزام پر ضمانت مسترد ہوئی ہو۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے عمران خان کی 9 مئی کے مقدمات میں ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے واضح کیا کہ کیس کے میرٹس کا فیصلہ ٹرائل کورٹ کرے گی۔