’اپنے گھر جاؤ‘: لندن میں تارکینِ وطن مخالف پُرتشدد مظاہرے پاکستان سمیت دیگر ایشیائی کمیونٹی پر کیسے اثر انداز ہو رہے ہیں؟

پولیس کی بڑی تعداد میں موجودگی کے باوجود یہ اجتجاج پرتشدد ہوا جس میں دو درجن سے زائد اہلکار زخمی ہو گئے۔
لندن، احتجاج
EPA / Shutterstock
مارچ 2025 میں ختم ہونے والے سال میں مجموعی طور پر 109,343 افراد نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دی

چند دن قبل لندن میں انتہائی دائیں بازو کے خیالات کے حامیوں کا ایک اجتماع ہوا تھا اور یہ اجتماع کئی دیائیوں میں برطانیہ میں منعقد ہونے والے تارکینِ وطن کے خلاف سب سے بڑے احتجاجی مظاہروں میں سے ایک تھا۔

13 ستمبر 2025 کو انتہائی دائیں بازو کے خیالات کے حامی کارکن ٹومی رابنسن کی جانب سے منعقد کیے گئے ’یونائٹ دی کنگڈم‘ مارچ کے لیے ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ افراد وسطی لندن میں جمع ہوئے۔

اس اجتماع میں شامل مظاہرین برطانیہ کے یونین جیک، انگلینڈ کے سینٹ جارج کراس اور یہاں تک کہ امریکی اور اسرائیلی پرچم بھی تھامے ہوئے تھے۔

ان مظاہرین کی تعداد پولیس کے اندازوں سے زیادہ تھی جن کو مدِنظر رکھتے ہوئے سکیورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے۔

یہ اجتماع، جسے ابتدائی طور پر ’آزادی اظہار رائے کے تہوار‘ کے طور پر پیش کیا گیا تھا، تیزی سے نسل پرستانہ سازشی نظریات کے اظہار کی طرف مڑتا نظر آیا اور اس کا اختتام مسلم مخالف نفرت انگیز نظریات کے پرچار پر ہوا۔

پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد میں موجودگی کے باوجود اس احتجاج میں تشدد کا رنگ غالب نظر آیا اور اس دوران دو درجن سے زائد اہلکار زخمی ہو گئے۔

اس احتجاجی مظاہرے کے دوران جو کچھ ہوا وہ اس بات کی یقین دہانی کروانے کے لیے کافی ہے کہ برطانیہ میں امیگریشن ایک تفرقہ انگیز مسئلہ بن گیا ہے، جس نے شناخت، تعلق اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے گہری دراڑوں کو بےنقاب کیا ہے۔

لندن، احتجاج
Christopher Furlong/Getty Images
’یونائٹ دی کنگڈم‘ مارچ کے لیے ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ افراد وسطی لندن میں جمع ہوئے

لندن میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کا احتجاج کیوں؟

لندن میں بڑی تعداد میں لوگوں کی اس ریلی میں شرکت امیگریشن کے معاملے پر ان کے غم و غصے کا ثبوت ہے، انھیں لگتا ہے کہ ان کی حکومت ملک کی سرحدوں کا کنٹرول کھو چکی ہے۔

بہت سے مظاہرین نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ برطانیہ غیرقانونی تارکین وطن کی آمد روک کر اور پناہ گزینوں سے متعلق قوانین کو سخت کر کے یہ ’کنٹرول واپس لے۔‘

دیگر افراد نے کہا کہ وہ وہاں برطانوی ثقافت کا دفاع کرنے کے لیے موجود تھے، جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ ختم ہو رہی ہے۔

اس اجتماع میں آزادی اظہار رائے کی بحالی کے مطالبات کیے گئے۔ بہت سے لوگوں کا اصرار تھا کہ امیگریشن کے خلاف عام لوگوں کو آواز بلند کرنے نہیں دی جا رہی۔

احتجاج کے دوران وزیراعظم کیئر سٹارمر کے خلاف نعرے بازی کے ساتھ ساتھ وسیع پیمانے پر سیاسی تبدیلی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

رابنسن کے علاوہ امریکی ارب پتی ایلون مسک نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اس احتجاج کی حمایت کی تھی۔

لندن، احتجاج
Mark Kerrison/In Pictures via Getty Images
2021 کی مردم شماری کے مطابق برطانیہ کی جنوبی ایشیائی برادری ملک کا دوسرا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے

امیگریشن مخالف مظاہروں کا جنوبی ایشیائی کمیونٹی پر اثر

2021 کی مردم شماری کے مطابق برطانیہ میں جنوبی ایشیائی برادری ملک کا دوسرا سب سے بڑا نسلی گروہ ہے۔

برطانیہ میں جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں اکثریت انڈین، پاکستانی اور بنگلہ دیشی باشندوں کی ہے جبکہ ان کے علاوہ سنہالہ اور نیپالی آبادی بھی کافی ہے۔

اگرچہ مظاہروں کا مقصد سرحدی کنٹرول کے سخت اقدامات اور پناہ گزینوں کی پالیسی کو سخت کرنا ہے لیکن اس کا اثر ان برادریوں پر محسوس کیا جا رہا ہے جو کئی نسلوں سے برطانیہ میں رہ رہی ہیں۔ ملک میں خاص طور پر مسلم اور سکھ برادریوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اس سال کے ابتدا میں اسلاموفوبیا پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم ٹیل ماما کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2024 میں مسلم مخالف نفرت ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی تھی جبکہ گذشتہ ہفتے ویسٹ مڈلینڈز کے علاقے میں ایک نوجوان سکھ خاتون کے ریپ کے واقعے کو پولیس نے ’نسلی طور پر سنگین حملہ‘ قرار دیا تھا۔

گذشتہ کچھ مہینوں میں انتہائی دائیں بازو اور تارکین وطن مخالف گروہوں کی طرف سے متعدد مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں، جس سے کمیونٹی میں غیر یقینی کی صورتحال اور پریشانیوں کو ہوا ملی۔

چند دن قبل ہونے والے مظاہروں میں ایسے پلے کارڈز تھے جن پر ’اپنے گھر جاؤ‘ اور ’تمام غیر قانونی افراد کو ملک بدر کریں‘ جیسے مطالبات درج تھے، جن سے نسلی بنیادوں پر ملک میںمزید تقسیم کے بڑھنے کے خدشات پیدا ہوئے ہیں۔

تاہم دیگر ممالک سے برطانیہ آنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ان کی آمد سے ملک کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی ہوتا ہے۔

رم داد خان کی عمر تقریبا چالیس برس ہے اور وہ 20 برس قبل ڈنکی لگا کر (غیرقانونی طریقے سے) افغانستان سے برطانیہ آئے تھے۔ ان کے لیے برطانیہ تک کا سفر بہت مشکلات سے بھراہوا تھا لیکن ایک بار جب وہ برطانیہ آگئے تو انھوں نے ’خوب محنت کی‘ اور آجوہ خوش ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ برطانیہ میں انتہائی دائیں بازو کے گروپس کی جانب سے منعقد کی گئی ریلی کے حوالے سے وہ فکر مند نہیں ہیں۔

رم داد خان کہتے ہیں کہ ’تارکینِ وطن کا برطانیہ آنا اچھی بات ہے، انھیں آنے دیں۔ وہ جب آتے ہیں تو یہاں کام کرتے ہیں، گھر خریدتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، گھر کرائے پر لیتے اور ایک طرح سے ملک کی سرمایہ کاری میں اپنا حصہ دیتے ہیں۔‘

’ان کے آنے سے کسی کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔‘

وہیں لاہور سے تعلق رکھنے والی سامعیہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بچی کے مستقبل کو لے کر تشویش میں مبتلا ہیں لیکن وہ کہنا چاہتی ہیں کہ ’برطانوی سماج کی خوبصورتی اس کی ملی جُلی ثقافت ہے اور اس سے کسی کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔‘

لکشمی کا تعلق ممبئی سے ہے اور وہ کہتی ہیں کہ دائیں بازو کے گروہوں کا عروج پوری دنیا میں ہورہا ہے۔

’انڈین ہوں یا کسی بھی ملک کے لوگ جب وہ برطانیہ آتے ہیں تو کسی مقصد کے لیے آتے ہیں، اپنے ساتھ اپنی صلاحیتیں لاتے ہیں اور ان ہی صلاحیتوں کی وجہ سے یہاں ملازمتیں کرتے ہیں۔‘

برطانیہ میں تارکینِ وطن مخالف جذبات میں اضافہ کیوں؟

تارکین وطن نے طویل عرصے سے برطانیہ کی آبادیاتی، ثقافتی اور معاشی شناخت کو تشکیل دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں خاص طور پر بریگزٹ کے بعد انتہائی دائیں بازو کی قیادت میں تارکین وطن کے خلاف عدم برداشت میں اضافہ ہوا۔

رشی سونک کے دورِ حکومت میں نقل مکانی میں ریکارڈ اضافے نے اس مایوسی میں اضافہ کیا۔

برطانیہ میں قومی شماریات کے دفتر کے مطابق برطانیہ میں قانونی طور پر آنے والے اور ملک چھوڑنے والوں کی تعداد کے درمیان فرق 2022 میں ریکارڈ 745,000 کا تھا۔

یہ اعداد و شمار بریگزٹ سے پہلے دیکھی جانے والی سطح سے تین گنا زیادہ تھے۔

مارچ 2025 میں ختم ہونے والے سال میں مجموعی طور پر 109,343 افراد نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دی ، جو حالیہ برسوں میں سب سے زیادہ اعداد و شمار میں سے ایک ہے۔

درخواست دہندگان کا سب سے بڑا گروپ البانوی ہے، اس کے بعد افغان، پاکستانی، ایرانی اور بنگلہ دیشی ہیں یعنی جنوبی ایشیائی قومیتیں سرفہرست پانچ قومیتوں میں شامل ہیں۔

لندن، احتجاج
Rasid Necati Aslim/Anadolu via Getty Images
لندن میں پولیس نے کہا کہ رابنسن کی احتجاجی ریلی ان کے اندازوں سے کہیں بڑے پیمانے پر تھی

غلط معلومات نے نہ صرف وسائل کی تقسیم اور مجموعی طور پر تحفظ کے بارے میں خدشات کو ہوا دی بلکہ تارکین وطن اور مسلم مخالف پروپیگنڈے کو بھی بڑھاوا دیا۔

لندن اور برمنگھم جیسے مالیاتی مراکز میں تقریبا 40 فیصد آبادی تارکین وطن پر مشتمل ہے جس سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ تارکین وطن کمیونٹیز زیادہ تر مواقع اور وسائل پر قبضہ کر رہی ہیں۔

انتہائی دائیں بازو کی شخصیات اس پیشرفت کو ملک کے ’زیرِ محاصرہ‘ ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کرتی ہیں۔

دریں اثنا وسیع تر معاشی اور معاشرتی دباؤ، بڑھتے ہوئے اخراجاتِ زندگی، رہائش کی قلت اور سیاسی عدم استحکام نے امیگریشن کو ایک آسان ہدف بنا دیا۔

سڑکوں پر پینٹ کیے گئے برطانوی پرچموں سے لے کر لندن بھر میں احتجاجی ریلیوں تک قوم پرست پیغامات اس کشیدگی کا واضح پیغام بن گئے ہیں۔

لندن، احتجاج
Vuk Valcic/SOPA Images/LightRocket via Getty Images
تارکین وطن نے طویل عرصے سے برطانیہ کی آبادیاتی، ثقافتی اور معاشی شناخت کو تشکیل دیا

کیا حالات مزید بگڑ سکتے ہیں؟

گذشتہ ہفتے کے آخر میں ہونے والے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ برطانیہ زیادہ ’پولرائزڈ‘ اور ممکنہ طور پر غیرمستحکم مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔

’سٹینڈ اپ ٹو ریسزم‘ کے زیر اہتمام جوابی احتجاج نے تقریباً پانچ ہزار افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا، جو رابنسن کے ہجوم کے مقابلے میں کہیں کم تعداد تھی۔

یہ عدم توازن نسل پرستی کے خلاف مزاحمت کے مقابلے میں تارکین وطن مخالف تحریک کی بڑھتی ہوئی طاقت کی عکاسی کرتا ہے۔

لندن میں پولیس نے کہا کہ رابنسن کی احتجاجی ریلی ان کے اندازوں سے کہیں زیادہ بڑی تھی اور اس احتجاج کے دوران 26 افسران کے زخمی ہونے، 25 گرفتاریوں اور مزید کارروائی کے وعدے کے ساتھ ، قانون نافذ کرنے والے مزید محاذ آرائی کے لیے بھی تیار ہیں۔

برطانیہ کی حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے ہوٹلوں کو بند کرنے کے اپنے منصوبوں کو تیز کرے۔

خدشات ہیں کہ پناہ گزینوں کے ہوٹلوں کی بندش سے ایسے لوگوں کے لیے کرائے کے گھروں کے استعمال میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے ایک اور تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔

برطانیہ کی تارکین وطن برادریوں کے لیے اب چیلنج ایک ایسے سیاسی ماحول کا سامنا کرنا ہے جہاں تارکین وطن مخالف جذبات نہ صرف آواز اٹھا رہے ہیں بلکہ تیزی سے مرکزی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US