برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے بیک وقت ایک اہم سفارتی فیصلہ کرتے ہوئے فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کر لیا۔ یہ اقدام عالمی سیاست میں ایک بڑا موڑ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ طویل عرصے سے جاری تنازع میں یہ پہلا موقع ہے کہ تین بڑی مغربی ریاستوں نے فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت کو اس سطح پر تسلیم کیا ہے۔
کینیڈین وزیرِ اعظم مارک کرنی نے کہا کہ اسرائیلی حکومت مسلسل ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے جو فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ان کے مطابق مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر اور غزہ میں جاری بمباری نے لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں، جو واضح طور پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کینیڈا نہ صرف فلسطین کو ریاست تسلیم کرتا ہے بلکہ دونوں فریقوں کے لیے پرامن مستقبل کی تعمیر میں تعاون کا خواہاں ہے۔
آسٹریلوی حکومت نے اپنے بیان میں کہا کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنا دو ریاستی حل کی عالمی کوششوں کو تقویت دینے کے لیے ضروری ہے۔ آسٹریلیا نے واضح کیا کہ حماس کا مستقبل کے فلسطین میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے اور اس تنازع کا پائیدار حل صرف امن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
برطانیہ کے وزیرِ اعظم کیئر اسٹارمر نے بھی اپنے ملک کی جانب سے فلسطین کو ریاست ماننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ دیرپا امن کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔
یہ تینوں ممالک کا مشترکہ اعلان فلسطینی ریاست کے عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی مہم کو نئی رفتار دے سکتا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔