بلوچستان ہائی کورٹ نے صوبے میں جاری گیس لوڈشیڈنگ اور کم پریشر کے مسئلے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (SSGCL) کے اعلیٰ حکام کو توہینِ عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ کمپنی عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے اور اس کا طرزِ عمل عوامی مفاد سے دانستہ غفلت کے مترادف ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک آئین کے آرٹیکل 25 اور 158 کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت کے مطابق وفاقی حکومت اور گیس کمپنیوں کا رویہ اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ صوبے کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے باوجود بلوچستان کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
دائر آئینی درخواست کی سماعت چیف جسٹس عدالت عالیہ بلوچستان جسٹس روزی خان بڑیچ اور جسٹس سردار احمد حلیمی پر مشتمل بینچ نے کی۔
عدالت نے SSGCL کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کو غیر تسلی بخش اور مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ "رپورٹ میں صرف نام درج کر کے ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔"
سماعت کے دوران عدالت کے روبرو ایک معذور صارف نے 5 لاکھ روپے کے گیس بل کی رسید پیش کی۔ صارف نے بتایا کہ وہ دو کمروں کے مکان میں رہتا ہے اور بل اس کی سالانہ آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔ عدالت نے اس پر شدید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اوگرا (OGRA) اور SSGCL کو متاثرہ صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کی ہدایت جاری کی۔
عدالت نے چیئرمین اوگرا کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ اوگرا وضاحت کرے کہ بلوچستان کو کم گیس کیوں فراہم کی جا رہی ہے۔ مزید برآں، عدالت نے ہدایت دی کہ صوبے کے ہر ضلع میں گیس پریشر اور لوڈشیڈنگ کی تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ وفاق نے بلوچستان کے 30 ایل پی جی پلانٹس 2019 میں بلاجواز بند کیے، جبکہ دیگر صوبوں میں نئے پلانٹس لگائے جا رہے ہیں جو صوبے کے ساتھ ناانصافی اور امتیازی سلوک ہے۔
عدالت نے چیف سیکریٹری بلوچستان کو ہدایت کی کہ وہ یہ معاملہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) اور کونسل آف کامن انٹرسٹ (CCI) میں اٹھائیں، جبکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان، فیڈرل سیکریٹری انرجی اور چیئرمین اوگرا کو عدالتی احکامات ارسال کرنے کی بھی ہدایت کر دی گئی۔
بلوچستان ہائی کورٹ نے واضح کیا کہ صوبے کے عوام کے ساتھ مزید ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی اور عدالت آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔