سینیٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کردیا گیا جس کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شدید شور شرابہ کیا گیا۔ اجلاس چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ڈیڑھ گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مجوزہ ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کابینہ نے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی ہے، اور اب اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جائے گا تاکہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جاسکے۔
وزیر قانون کے مطابق ترمیم میں ہائی کورٹ ججز کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دینے، صوبائی کابینہ کے حجم میں اضافے اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ تحلیل کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ترمیم کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف ہی چیف آف ڈیفنس فورسز ہوں گے، جبکہ فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ائیر فورس اور فلیٹ مارشل کے اعزازی عہدوں کو تاحیات قرار دیا جائے گا، ان عہدوں کو ختم کرنے یا واپس لینے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہوگا۔
وزیر قانون نے مزید بتایا کہ ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے جو سپریم کورٹ کے آئینی مقدمات سننے کی مجاز ہوگی۔ اس سے سپریم کورٹ کے بوجھ میں کمی اور انصاف کی فراہمی میں تیزی متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز کی ٹرانسفر کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا جائے گا اور وزیراعظم کا اس معاملے میں کردار ختم کردیا گیا ہے۔ ترمیم کے تحت دو سال سے زائد تبادلہ جج کی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔
دوسری جانب سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بل پر اتفاقِ رائے کے بغیر کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے 27ویں ترمیم کا مسودہ دیکھا ہی نہیں، پورے ایوان کو کمیٹی کی شکل دے دی جائے۔علامہ راجا ناصر عباس نے اعتراض کیا کہ ایسی ترامیم سے ادارے مزید کمزور ہوں گے، ہمیں بتایا ہی نہیں گیا کہ اصل مقاصد کیا ہیں۔
اسی دوران نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے وضاحت دی کہ قائد حزب اختلاف کی تقرری چیئرمین سینیٹ کا اختیار ہے اور بل پر مفصل بحث کمیٹی میں کی جا سکے گی۔
بعدازاں سینیٹ نے آئینی ترمیم کا بل مشترکہ کمیٹی کے سپرد کردیا جس میں قومی اسمبلی و سینیٹ کی قانون و انصاف کمیٹیوں کے چیئرمین فاروق ایچ نائیک اور محمود بشیر ورک مشترکہ طور پر صدارت کریں گے۔پیپلز پارٹی کی شیری رحمان نے کہا کہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام میثاقِ جمہوریت کا وعدہ تھا، یہ ترمیم عدلیہ کی آزادی اور صوبائی حقوق کے تحفظ کی سمت ایک قدم ہے۔
سینیٹ کا اجلاس اپوزیشن کے شور شرابے کے باعث اتوار کی شام 3 بجے تک ملتوی کردیا گیا چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ ارکان آئینی ترمیم پر کل اور پرسوں بھی بحث کرسکیں گے۔