بچی کو 400 پاؤنڈ میں بیچ دیا۔۔ جانیے افغان شہری اپنے بچوں کو بیچنے پر کیوں مجبور ہوگئے؟

image

کئی دہائیوں جاری خانہ جنگی کے بعد افغان طالبان ایک بار پھر افغانستان میں حکمرانی کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ البتہ افغانستان پر حکومت جس کسی نے بھی کی مگر افغان شہریوں کے حالات آج تک تبدیل نہ ہوسکے۔

برطانوی اخبار کی ایک خبر کے مطابق افغانستان میں انسانی بحران سنگین ہوتا جارہا ہے۔ جہاں بھوک سے پریشان افغان شہری خوارک کی قلت کے باعث اپنے شیرخوار بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 90 لاکھ سے زائد افراد خوراک کی کمی کا شکار ہوگئے ہیں۔

رپورٹ میں آگاہ کیا گیا ہے کہ اگر اس انسانی بحران کا فوری حل تلاش نہ کیا گیا تو افغانستان کے حالات یمن سے بھی بدتر ہو جائیں گے۔

برطانوی اخبار کے مطابق ایک والدین نے اپنے نومولود بچے کو 400 برطانوی پاؤنڈ یعنی 96 ہزار پاکستانی روپے میں فروخت کردیا۔ تاکہ وہ اپنے گھر والوں کیلئے چند ماہ کے راشن کا انتظام کرسکیں گے۔

اخبار کے مطابق نومولود بچی چلنے پھرنے تک اپنے والدین کے ساتھ رہے گی۔ تاہم بعد میں خریدنے والا بچی کو اپنے ساتھ لے جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق خریدار والے شخص نے والدین کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ بچی کی اپنے پاس پرورش کرے گا اور پھر اس کی شادی بھی کروائے گا۔

جبکہ بچی کا اصل باپ کچرا چننے کا کام کرتا ہے اور اس کے پاس کمائی کا کوئی اور دوسرا راستہ نہیں۔ بچی کے والد نے بتایا کہ اس کا خاندان بھوک کا شکار ہے، اور اس کے گھر میں کھانے پینے کا کوئی سامان موجود نہیں ہے۔

والد نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میری بچی کا مستقبل کیا ہوگا، اور میری بیٹی بڑے ہوکر کیا محسوس کرے گی۔ مگر یہ قدم اٹھانے پر میں مجبور تھا۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی خوراک کی کمی اور بھوک کا سامنا کررہی ہے۔ جبکہ 10 لاکھ سے زائد بچے بھوک کی وجہ سے مرسکتے ہیں۔

بات صرف اتنی سی ہے کہ افغانستان پر جو چاہیے حکومت کرے اور اپنی مرضی کا انتظام مسلط کیا جائے۔ مگر افغان شہریوں کی زندگی بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔


About the Author:

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.