ہم پاکستانیوں نے خواب دیکھا تھا کہ مدینہ کی ریاست ایک بار پھر سے بنے گی بنے گا مگر یہ تو ہو نہیں سکا پر پاکستان میں ایک ایسا گاؤں بھی موجود ہے جسے لوگ ریاست مدینہ کا عکاس سمجھتے ہیں۔
اس گاؤں کا نام چک493 حسین پور ہے اور یہ پنجاب کے علاقے اوڈانوالہ میں واقع ہے۔اس گاؤں میں دینی فضاء قائم ہے۔
یہاں کوئی فرد بھی سگریٹ نہیں پیتا کیونکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ ہر نشے کی ابتداء یہی سگریٹ ہے اور سب سے اچھی بات تو یہ ہے کہ یہاں کی دوکانوں میں سگریٹ فروخت بھی نہیں ہوتا۔
اور اگر کوئی شخص کسی اورعلاقے سے سگریٹ لے اور پیے تو پھر اس پر کوئی جرمانہ وغیرہ نہیں ہوتا بس جب وہ مر جاتا ہے تو اس کا جنازہ کوئی بھی فرد نہیں پڑھاتا۔
اوڈانوالہ کے اس مثالی گاؤں میں شادی بیاہ یا عام حالات میں بھی موسیقی نہیں سنی جاتی یہاں موسیقی پر پابندی ہے اور اگر کسی کے گھر کوئی مہمان وغیرہ بھی تشریف لے آئے۔
تو بھی وہ گاؤں میں داخل ہونے سے پہلے اپنی گاڑی میں موسیقی بند کر دیتا ہے۔اور تو اور یہاں پکی قبریں بنانے یا قبر پر تختی لگانے کا بھی رواج نہیں کیوں کہ اسلام میں پکی قبر سے منع کیا گیا ہے۔
مزید یہ کہ یہاں قبریں بلکل ایک لائن میں ترتیب سے بنی ہوئی ہیں اب بات کرتے ہیں حسین پور گاؤں نامی اس گاؤں میں یہ دینی فضاء کیسے قائم ہوئی؟
تو یہاں کی سب سے بڑی مسجد کے پیش امام اور شیخ الحدیث مفتی محمد انیس کا بہت بڑا ہاتھ ہے انہوں نے اسلام کی روح سے یہاں کے رہنے والوں کو سب باتیں سمجھائیں جو انہیں اچھے سے سمجھ آ گئیں۔
اس کے علاوہ مفتی محمد انیس صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان بننے سے بھی پہلے کا یہاں ایک دینی مدرسہ قائم ہے انہوں نے تب سے اس علاقے میں دینی فضاء قائم کر رکھی ہے اور یہاں ایک ہی جٹ برادری رہتی ہے۔
اور سب لوگ زمینداری کے پیشےسے وابستہ ہیں اور ہماری باتیں سمجھتے ہیں جیسا کہ مساجد تو بہت ہیں ہمارے یہاں پر ازان صرف ایک بری مسجد میں ہی ہوتی ہے اور باقی تمام مسجدوں سے بھی وہی ازان سنی جاتی ہے۔
اس عمل سے علاقے میں یکجہتی بنی رہتی ہے اور مفتی انیس صاحب کہتے ہیں کہ انسان تو صرف کوشش کر سکتا ہے باقی کام تو اللہ پاک نے کرنے ہوتے ہیں۔
آج ہماری کوشش کا ہی صلہ ہے کہ پورا کا پورا گاؤں تمام نمازیں پرھتا ہے اور جمعے کے روز مسجدوں میں جگہ نہیں ہوتی پاؤں رکھنے کی۔
آخر میں اس علاقے کی سب سے خوبصورت بات تو جو پورے پاکستان میں اسے دوسرے علاقوں اور گاؤں سے مختلف بناتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں جو بھی نوجوان اپنی تعلیم سے فارغ ہو جاتا ہے یا پھر ویسے ہی فارغ ہو وہ دیگر لڑکوں کے ساتھ مل کر پورا علاقہ صاف کرتے ہیں اور انکی نگرانی عبداللہ نامی ایک علاقے کا نوجوان کرتا ہے مزید یہ کہ اس کام کیلئے یہ تنخواہ نہیں لیتے بلکہ رضاکارانہ طور پر کرتے ہیں۔