یاسر عرفات فلسطینی تاریخ کے وہ رہنما ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنی قوم اور اپنے لوگوں کے لیے اپنی مثبت کوششیں کیں۔ ان کی شخصیت میں اتنا خوف تھا کہ لوگ قریب آنے سے بھی ڈرتے تھے۔ یاسر عرفات
فلسطین کی آزادی کے لیے سرگرم تنظیم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے سربراہ تھے۔ ان کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کرنے کے لیے بھی دعوت دی گئی تھی۔
پہلی بار کسی ایسے شخص کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا جو کسی ملک کا سربراہ نہیں تھا۔
عرفات کے قریبی ساتھی اور فلسطینی انتظامیہ کے پہلے وزیر خارجہ نبیل شاط کہتے ہیں:
''
عرفات نے پہلی بار وہ چیز تسلیم کی تھی جو انھوں نے پہلے کبھی بھی قبول نہیں کی تھی۔ انھوں نے اپنی داڑھی مکمل طور پر صاف کروا دی تھی اور نیا سوٹ بھی پہنا تھا۔ براؤن سوٹ بہت سلیقے سے استری کیا گیا تھا اور وہ بالکل چمک رہے تھے۔
اس دن عرفات نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ:
''
میں یہاں زیتون کی شاخ (امن کا پیغام) اور مجاہد آزادی کی بندوق لے کر آیا ہوں۔ میرے ہاتھ سے زیتون کی اس شاخ کو گرنے مت دیجیے۔
''
یاسر عرفات ہالی وڈ فلموں کے جواریوں کی طرح تھے جو بُرے کارڈ رکھنے کے باوجود ہمیشہ لوگوں کو دھوکہ دیتے اور ظاہر کرتے کہ جیت اُنھی کی ہو گی۔ ان کی خالی بندوق سے بھی لوگ خوف کھاتے تھے۔ جس وقت ان کے ہاتھ میں کوئی چھوٹی یا بڑی بستول ہوتی تو کوئی ان کے قریب کھڑے ہو کر بات کرنےسے بھی گھبراتا تھا۔
عرفات ایک چھوٹے قد کے مرد تھے۔ جن کا قد تقریباً 5 فٹ 4 انچ یا اس سے بھی کم تھا۔ وہ سکون سے نہیں بیٹھ سکتے تھے ہمیشہ کچھ نہ کچھ پلان کرتے رہتے تھے۔ عرفات کسی جگہ بیٹھنے سے پہلے ہر اس زاویے کا مطالعہ کرتے کہ جہاں سے ان پر گولی چلائی جا سکتی تھی۔ ان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا اتنا خفیہ رکھا جاتا تھا کہ ان کے قریبی لوگوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ یاسر عرفات ہمیشہ کہتے کہ میری شادی تو فلسطین سے ہوئی ہے۔ میں شادی کے بارے میں نہیں سوچتا۔ انہوں نے دیر سے شادی کی۔ لیکن کسی فلسطینی خاتون سے نہیں بلکہ ایک عیسائی خاتون سے کی جس سے ان کی بیٹی بھی ہے۔
بشکریہ : بی بی سی اردو