اقبال نے کہا کہ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔ اگرچہ یہ بات درست ہی سہی لیکن جہاں عورت کا وجود کائنات میں ممتا اور محبت کے رنگ نچاور کرتا ہے وہیں یہ بلند حوصلے اور ہمت کی علامت بھی ہے۔ آج کے اس آرٹیکل میں ہم پاکستان کی چند ایسی خواتین کا ذکر کریں گے جنھوں نے اپنے جذبے، محنت اور لگن سے اپنی ہی نہیں بلکہ کئی زندگیاں بدلیں اور کئی عورتوں کے لئے مثال بھی قائم کی۔
جنرل نگار جوہر
پاکستان کی طاقت ور خواتین میں ایک نمایاں نام جنرل نگار جوہر کا بھی ہے۔ خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھنے والی گوہر نے بچپن سے ہی اپنے فوجی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوج میں جانے کا خواب دیکھ رکھا تھا۔ جنرل نگار جوہر بنیادی طور پر ڈاکٹر ہیں۔ ان کی انتھک محنت اور قیادانہ صلاحیتوں کی وجہ سے انھیں اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جاتا رہا۔ بظاہر کم عمری میں یتیمی اور اس کے بعد بیوگی کا دکھ دیکھنے والی جنرل نگار جوہر ملک کی تمام خواتین کے لئے طاقت کی ایک ایسی علامت ہیں جن کو مشعل راہ بنا کر ملک کی ہر عورت معاشرے میں کوئی بھی شعبہ اختیار کرنے کا خواب پورا کرسکتی ہے۔ جنرل نگار جوہر کہتی ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سے کسی بھی خاتون کو فوج میں کسی شعبے کی کمان نہیں دی گئی تھی۔ اس لیے میں جانتی تھی کہ مجھے ان خواتین کے لیے کامیابی یا ناکامی کی مثال قائم کرنی ہے جو میرے بعد آئیں گی۔‘
ہزاروں لاوارث بچوں کی ممی "بلقیس ایدھی"
اپنے بچوں کو تو ہر ماں پیار کرتی ہے لیکن بلقیس ایدھی ایک ایسی عظیم ہستی تھیں جن کی مثال ملک تو کیا ساری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ بنیادی طور پر نرس کے مقدس شعبے سے تعلق رکھنے والی بلقیس ایدھی کی شادی جب دنیا کے نامور سماجی کارکن عبدالستار ایدھی سے ہوئی تو جیسے دونوں کا اوڑھنا بچھونا انسانیت کی خدمت کرنا ہی رہ گیا۔ بلقیس ایدھی نے لاوارث بچوں کی نگہداشت اور پرورش کرنے کے علاوہ ہزاروں نوجوان لڑکیوں کی شادیاں بھی کروائیں۔ بلقیس ایدھی لاوارث مُردوں کو نہلانے کا کام بھی کرتی تھیں۔ منکسر المزاج اور حلیم طبع بلقیس ایدھی کو مادر پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کے اندر پلنے والے کئی لاوارث بچے آج دنیا بھر میں عزت دار مقام پر ہیں اور اس ادارے کے زیرِ سایہ آنے والی لڑکیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش باش زندگی بسر کررہی ہیں۔ بے شک بلقیس ایدھی نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت میں وقف کر کے ایک یا دو نہیں بلکہ لاکھوں زندگیاں بدل دیں۔
بچے کو تھانے ساتھ لے کر آنے والی فرض شناس پولیس افسر
پیشہ ورانہ زندگی اور نجی ذمہ داریوں میں توازن رکھنا سیکھنا ہو تو اے ایس پی عائشہ بٹ کی مثال لی جاسکتی ہے۔ شیخوپورہ میں اے ایس پی کے فرائض بخوبی انجام دیتی عائشہ اس وقت لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئیں جب انھوں نے اپنی 8 ماہ کی بیٹی کو بھی پولیس اسٹیشن لانا شروع کیا۔ اپنی تصویر سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شئیر کرتے ہوئے عائشہ نے کیپشن دیا کہ " یہ کام مشکل ہے لیکن ناممکن بالکل بھی نہیں ہے۔" عائشہ نے دوہری ذمہ داریاں خوبصورتی سے ادا کرکے آنے والی بہت سی نسلوں کی خواتین کے لئے نا صرف مثال قائم کی ہے بلکہ انھیں اپنی زندگیاں بدلنے کی روشنی بھی فراہم کی ہے۔