ساس ہے یا ڈائین ۔۔ پاکستانی ڈراموں میں ہمیشہ ساس کو برا ہی کیوں دکھایا جاتا ہے؟ سوشل میڈیا صارفین بھڑک اٹھے

image

پاکستانی ڈراموں میں ساس کا کردار بہت برا یا یوں کہنا چاہیے کہ بہت ڈراؤنا بن چکا ہے، ہر دوسرے ڈرامے میں ساس کو بہو کا دشمن اور سازشی دکھایا جارہا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ساس اور بہو کے درمیان نوک جھونک، چپقلش اور کھینچا تانی ضرور دیکھنے میں آتی ہے لیکن ایسے خاندانوں کی بھی کوئی کمی نہیں جہاں ساس اور بہو بہت اچھی طرح رہتی ہیں۔

اکثر گھرانوں میں ساس اپنی بہو سے یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ ان سے بھی اسی شدت سے محبت کریں، جس طرح وہ اپنے والدین سے کرتی ہیں اور ہر بات پر اپنی بہو کا مقابلہ اپنی بیٹی سے کرتی ہیں، اسی طرح بہویں بھی اپنی ساس سے یہ توقع کرتی ہیں کہ وہ ان سے بیٹیوں جیسا رویہ رکھیں۔

اگر دیکھا جائے تو ساس اور بہو کا رشتہ انتہائی خوبصورت ہوتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ساس خود پانی سے روٹی کھا لیتی ہے لیکن بہو کے لیے خالص دیسی گھی کے اجزا سے کھانے تیار کرواتی ہے تاکہ بہو صحتمند رہے اور آنے والی نسل بھی طاقتور ہو۔

کوئی بھی رشتہ بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوسکتا بلکہ ہمارے رویئے اس کو اچھا یا برا بناتے ہیں ۔اگر ساس بہو کو دل سے بیٹی بنا لے اور بہو ساس کو دل سے ماں تو یقین جانے گھر میں کبھی فساد نہیں ہو گا کیونکہ تالی دو ہاتھ سے بچتی ہے ایک سے نہیں جب تک دونوں فریقین خوش دلی سے ایک دوسرے کو قبول نہ کریں تو گھر کا ماحول بہتر نہیں ہوسکتا۔

جہاں تک بات ہمارے ڈراموں کی ہے تو انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان ڈرامے کسی بھی طرح معاشرے کی حقیقی عکاسی نہیں کرتے بلکہ اس وقت ہمارے ڈراموں میں معاشرے کے برعکس انتہائی منفی کردار پیش کئے جارہے ہیں جو کسی بھی طرح ہمارے معاشرے کے آئینہ دار نہیں۔


About the Author:

Arooj Bhatti is a versatile content creator with a passion for storytelling and a talent for capturing the human experience. With a several years of experience in news media, he has a strong foundation in visual storytelling, audio production, and written content.

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.