’بڑھتے خطرات‘ کے بعد چین کا دفاعی بجٹ میں اضافے کا اعلان

image
چین نے رواں سال دفاعی بجٹ کو بڑھا کر سات اعشاریہ دو فیصد تک کرنے کا اعلان کیا ہے جو حکومت کی اقتصادی ترقی کی پیش گوئی سے زیادہ ہے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق چین کے وزیراعظم لی کیچیانگ نے مسلح افواج سے کہا کہ ’وہ جنگی صلاحیت کو بڑھائیں۔‘

اتوار کو جاری کیے گئے چین کے قومی بجٹ میں فوجی اخراجات کو 1.55 ٹریلین یوآن یا 224 ارب ڈالر تک بڑھانے کی تفصیل دی گئی ہے۔

چین کے پڑوسی ممالک اور واشنگٹن اس بجٹ کو چینی افواج کی جنگ اور جارحانہ پالیسی کے حوالے سے ایک پیمانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

رواں سال کیا جانے والا اضافہ دفاعی اخراجات پر خرچ کے حوالے سے غیرمعمولی نہیں اور گزشتہ آٹھ برس کے دوران چین نے اسی رفتار سے فوجی صلاحیت بڑھانے پر رقم لگائی ہے۔

دفاعی اخراجات کے مقابلے میں چین کی سالانہ اقتصادی ترقی کی نمو قدرے کم ہے جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت کو درپیش اندرونی چیلنجز کے باعث ہے۔

حالیہ برسوں میں چین نے تائیوان کے حوالے سے جارحانہ پالیسی اختیار کی ہے جس کو وہ اپنا حصہ قرار دیتا ہے جبکہ امریکہ اور دنیا کے متعدد ملک اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ 

چین کے وزیراعظم نے کہا کہ ’مسلح افواج کو تمام شعبوں میں فوجی تربیت اور تیاری کو تیز کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ فوج کو ’جنگی حالات کے لیے تیار رہنے پر زیادہ سے زیادہ توانائی صرف کرنی چاہیے، اور تمام سمتوں اور شعبوں کو مضبوط بنانا چاہیے۔‘

وزیراعظم لی کیچیانگ نے نیشنل پیپلز کانگریس کے مندوبین کو بتایا کہ ’چین کو دبانے اور اس پر قابو پانے کی بیرونی کوششیں اور خطرات بڑھ رہے ہیں۔‘

اکتوبر میں صدر شی کو پارٹی اور فوج کے سربراہ کے طور پر مزید پانچ سال کے لیے دوبارہ منتخب کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

صدر شی جن پنگ پارٹی کے اندر ناقابل چیلنج نیشنل پیپلز کانگریس کے ایجنڈے میں صدر شی جن پنگ کی دوبارہ تقرری بھی ہے۔

اُن کو پارٹی اور فوج کے سربراہ کے طور پر مزید پانچ سال کے لیے گزشتہ برس اکتوبر میں دوبارہ منتخب کیا گیا تھا۔

حالیہ عرصے میں زیرو کووڈ پالیسی کے باعث تنقید کا نشانہ بننے والے 69 سالہ صدر شی جن پنگ کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔

نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے لی کوان یو سکول آف پبلک پالیسی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر الفریڈ ملوان وو نے اے ایف پی کو بتایا کہ شی جن پنگ کو پارٹی کے اوپری حصے میں ’نہایت مضبوط‘ مقام حاصل ہے جو انہیں عملی طور پر جماعت کے اندر ناقابل چیلنج بنا دیتا ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.