’میرا دل ٹوٹ گیا تھا‘، مبینہ ملک بدری کے بعد یوکرینی بچوں کی واپسی

image
رواں ہفتے کے اختتام پر ایک طویل کارروائی کے بعد 30 سے زیادہ بچوں کو روس اور اس کے زیر قبضہ کریمیا سے یوکرین میں ان کے خاندانوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ان یوکرینی بچوں کو جنگ کے دوران روسی فوج کے زیر قبضہ علاقوں سے منتقل کیا گیا تھا۔

جمعے کو ایک پیچیدہ کارروائی کے بعد ان بچوں کو بیلاروس کے ذریعے یوکرین پہنچایا گیا۔ ماؤں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو جب گلے لگایا تو اس وقت جذباتی مناظر تھے۔

13 برس کی بچی داشا راک نے کہا کہ گزشتہ برس جنگ کی وجہ سے وہ اور ان کی جڑواں بہن نے روس کے زیر انتظام علاقہ خیرسن چھوڑنے اور کریمیا کے ایک ہالی ڈے کیمپ میں جانے پر رضا مندی ظاہر کی تھی لیکن جب کریمیا پہنچے تو روسی حکام نے کہا کہ وہ یہاں زیادہ عرصے تک رک سکتے ہیں۔

’انہوں نے کہا کہ ہمیں گود لیا جائے گا اور ہمیں سرپرست مل جائیں گے۔ جب پہلی مرتبہ انہوں نے کہا کہ ہم طویل عرصے تک رکھا جائے گا تو ہم رونے لگے۔‘

داشا راک کی والدہ نتالیا نے کہا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی واپسی کے لیے پولینڈ، بیلاروس اور ماسکو کا سفر کیا۔

یوکرین کا علاقہ کریمیا سنہ 2014 سے روس کے قبضے میں ہے۔

کریمیا تک سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے نتالیا نے کہا کہ مسلسل سفر کیا اور اس دوران وہ سوئی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اپنے پیچھے رہ جانے والے بچوں کو دیکھ کر دل ٹوٹ گیا تھا جو باڑ کے پیچھے رو رہے تھے۔‘

اب تک 31 بچوں کو واپس یوکرین لایا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کیئف کے اعدادوشمار کے مطابق 19 ہزار 500 بچوں کو روس یا اس کے زیر انتظام علاقے کریمیا لے جایا گیا ہے۔

یوکرین نے بچوں کے غیرقانونی ملک بدر کیے جانے کی مذمت کی ہے۔

ماسکو جس نے یوکرین کے مشرق اور جنوب میں کچھ علاقوں پر قبضہ کیا ہے، نے بچوں کے اغوا کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کو حفاظت کی وجہ سے منتقل کیا گیا ہے۔  

بچوں کو واپس لانے والی تنظیم سیو یوکرین ہیومینیٹرین کے بانی میکولا کولیبا نے کہا ہے کہ بچوں کو بحفاظت واپس لانے کا پانچواں مشن مکمل ہونے کے قریب ہے۔

انہوں نے سنیچر کو ایک بریفنگ کے دوران کہا کہ 31 بچوں کو ملک واپس لایا گیا ہے۔


News Source   News Source Text

عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts