شوگرین سنڈروم: ’میرے گھر والے بھی میری حالت نہیں سمجھتے، انھیں لگتا ہے میں بیماری کی اداکاری کر رہی ہوں‘

ماہرین کے مطابق ’شوگرین سنڈروم‘ ایک آٹو امیون سنڈروم ہے یعنی اس بیماری میں جسم کا مدافعتی نظام بیماریوں سے لڑنا بند کر دیتا ہے اور جسم میں موجود اعضا پر حملہ آور ہو جاتا ہےاور یوں یہ جسم کے اعضا کو نقصان پہنچاتا ہے۔

’میں ٹھیک محسوس نہیںکر رہی تھی اور ڈاکٹر سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے کہمیرے ساتھکیاہو رہا ہے۔ ڈاکٹر کہتے کہ مجھے نفسیاتی مسئلہ ہے کوئی جسمانی بیماری نہیں۔‘

یہ الفاظ ہیں 60 سالہ کرتیدا اوجھا کے جو گذشتہ 31 برسوں سے ’شوگرین سنڈروم‘ نامی بیماری میں مبتلا ہیں

لیکن اس تکلیف دہ صورتحال میں ان کے گھر والے بھی ان کو بیمار سمجھنے کو تیار نہیں۔

’میرے گھر والے بھی میری اس کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ اس میں مریض کو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔ اکثر مجھے ذیادہ تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے، مختلف جسمانی تکالیف کا سامنا ہوتا ہے تاہم اس کی ظاہری علامت ظاہر نہیں ہوتی لہذا گھر والے سمجھتے ہیں کہ میں بیماری کی اداکاری کر رہی ہوں۔‘

کرتیدا کی یہ عجیب و غریب بیماری ماہرین کے مطابق قابل علاج نہیں ہے۔ اس بیماری میں جسم کا مدافعتی نظام بیماری سے لڑنا بند کر دیتا ہے اور جسم کے اعضا کو نقصان پہنچاتا ہے۔

’آپ کو نفسیاتی مسئلہ ہے، جسمانی مرض نہیں‘

شوگرین سنڈروم سے قبل کرتیدا بہت چاق و چوبند تھیں اور وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ ایک بیماری ان کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دے گی۔

ماہرین کے مطابق اس بیماری کی صحیح وجہ کا پتہ نہیں چل سکا ہے اس لیے اس بیماری کا کوئی علاج بھی نہیں ہے۔

کرتیدا 1989 سے صحت کے اسمسئلے کا شکار ہیں۔ اس بیماری کے آغاز میں پہلے ان کی آنکھیں درد کرتی تھیں اورپھر وہ اکثر بیمار رہنے لگیں۔

کرتیدا کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہونے لگا،۔ وہ بہت جلدی تھک جاتیں اور ان کا منھ منہ خشک ہو جاتا تھا لیکن کوئی ڈاکٹر بھی ان کے مرض کی تشخیص نہیں کر سکا۔

کرتیدا کہتی ہیں ’ڈاکٹر کہتے تھے کہ آپ جسمانی نہیں ذہنی طور پر تکلیف میں ہیں۔ جب انھوں نے کہا کہ مجھے نفسیاتی بیماری ہے تو میں نے اس کے بارے میں مزید مطالعہ کرنا شروع کر دیا تو میرے سامنے ’شوگرین سنڈروم‘ کے بارے میں مضامین آئے۔ میں نے محسوس کیا کہ ایک ریمیٹولوجسٹ( جوڑوں، ہڈیوں اور اعضا سے متعلق ماہرین) میری بیماری کا علاج کر سکتا ہے۔‘

کرتیدا کے سامنے اب بڑا سوال یہ تھا کہ ریمیٹولوجسٹ کو کیسے تلاش کیا جائے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’احمد آباد میں 2002 میں کوئی ریمیٹولوجسٹ نہیں تھا۔ پھر میں نے ممبئی میں ایک ماہر ڈاکٹر کی تلاش کی۔ میں وہاں گئی، تمامٹیسٹ کروائے تو مجھے ’شوگرین سنڈروم‘ کی تشخیص ہوئی۔‘

اسی سال، کرتیدا کو امریکہ میں رینڈولف (میکن) ویمن کالج میں وزیٹنگ پروفیسر شپ کی پیشکش کی گئی اور

وہ ایک سال کے لیے اپنے دو بچوں کے ساتھ امریکہ چلی گئیں تاہم وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ اپنی بیماری کی وجہ سے اپنا کیریئر جاری نہیں رکھ سکیں۔

اور انھوں نے فری لانسر کے طور پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

امریکہ میں رہنے کے دوران انھیں شوگرینز فاؤنڈیشن نامی تنظیم کے بارے میں معلوم ہوا۔ یہ تنظیم ’شوگرین سنڈروم‘ کے حوالے سے نہ صرف آگاہی پیدا کرتی ہے بلکہ مریضوں کو تمام معلومات اور مدد بھی فراہم کرتی ہے۔

امریکہ سےواپسی کے بعد انھوں نے اس تنظیم کی طرز پر انڈیا میں بھی اسی نوعیت کی ایک تنظیم شروع کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس سے متاثرہ مریضوں کی مدد کی جائے اور پھر انھوں نے ’شو گرینز انڈیا‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔

جسم کا مدافعتی نظام بیماریوں سے لڑنا بند کر دیتا ہے

ماہرین کے مطابق ’شوگرین سنڈروم‘ ایک آٹو امیون سنڈروم ہے یعنی اس بیماری میں جسم کا مدافعتی نظام بیماریوں سے لڑنا بند کر دیتا ہے اور جسم میں موجود اعضا پر حملہ آور ہو جاتا ہےاور یوں یہ جسم کے اعضا کو نقصان پہنچاتا ہے۔

اس بیماری کی علامات کےمطابق

  • منھ میں موجود لعاب (تھوک) میں سفید خلیات بڑھنے سے منھ خشک ہوجاتا ہے جو کھانا نگلنا مشکل بناتا ہے۔
  • اس بیماری کی سب سے بڑی علامت خشک آنکھیں ہیں، متاثرہ فرد کی آنکھوں میں نمی بھی کم ہو جاتی ہے
  • جلد اور جسم کے دیگر حصے بھی خشک ہونے لگتے ہیں
  • متاثرہ فرد انتہائی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتا ہے
  • متاثرہ فرد کو جوڑوں کے درد کا سامنا رہتا ہے
  • اندام نہانی کی خشکی، جلد کے امراض، جگر، گردے سے متعلق امراض، پھیپھڑوں کی شدید بیماریاں بھی لاحق ہوسکتی ہیں۔
شو گرینز انڈیا
Getty Images

ماہرین کے مطابق اس عارضے میں مبتلا مریض اعصابی عوارض مثلاً بھولنے اور توجہ مرکوز کرنے میں ناکامی کا بھی شکار ہوتے ہیں۔

کرتیدا کہتی ہیں کہ ’اس بیماری سے متاثرہ مریضوں کی تعداد کہیں ذیادہ ہو سکتی ہے تاہم چونکہ بیماری کی تشخیص نہیں ہوپاتی اور اس بیماری کا نوٹس نہیں لیا جاتا اس لیے اس سے متاثثرہ افراد کی درست تشخیص نہیں کی جا سکتی۔

’بہت سے لوگوں نے ’شوگرین سنڈروم‘ کا نام بھی نہیں سنا ہوگا لہذا ان کی بیماری کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی۔‘

وہ مزید کہتی ہیں ’ہمارے پاس ریمیٹولوجسٹ کی بھی کمی ہے۔ لیکن پچھلے 10 سالوں میں ان میں کچھ اضافہ ضرور ہوا ہے۔ کچھ مریضوں میں گٹھیا یا لیوپس (قوت مدافعت کا اپنے ہی جسم کے خلاف استعمال ہونا) جیسی بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔

اس بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے بعد مریض کی پوری زندگی بدل جاتی ہے۔ اگر مرض کی بروقت تشخیص ہو جائے، طرز زندگی بدل جائے اور مثبت رویہ برقرار رکھا جائے تو ایک نارمل زندگی کی طرف لوٹا جا سکتا ہے۔‘

خود بیماری کا سامنا کرتے ہوئے دوسروں کی مدد کیسے کی

پرتیدا کہتی ہیں کہ شوگرین سنڈرومسے متاثرہ افراد کی بیماری کو ان کے گھروں میں بھی نہیں سمجھا جاتا اسی تلخ حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے انھوں نے ایسے مریضوں کی مدد کے لیے ایک تنظیم قائم کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کرتیدا کا ادارہ مریضوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے مرض سے آگاہی کے پروگرام اور میٹنگز کا انعقاد کرتا ہے۔

بھارتی دیش پانڈے نامی خاتون کی عمر 58 سال ہے۔ انھیں ’شوگرین سنڈروم‘ کا سامنا ہے۔ وہ احمد آباد میں رہتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’پہلے میرے شوہر کا خیال تھا کہ میں کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہوں۔ میں صرف ڈرامہ کر رہیہوں۔ لیکن اس ادارے میں متاثرہ مریضوں کے اہل خانہ سے بات چیت کے لیے ایک خصوصی پروگرام منعقد کیا گیا۔ اس کے بعد میری بیماری کے بارے میں میرے شوہر کا رویہ بدل گیا۔‘

’میرے خاندان نے میرے درد کو سمجھا اور میری مدد کرنا شروع کر دی۔ چند سال بعد میرے شوہر کی کینسر سے موت ہو گئی۔ اب میرے دونوں بچے بیرون ملک ہیں۔ میں تنہا زندگی گزارتی ہوں لیکن تنظیم میں کرتیدا اور دوسروں کی محبت اور حمایت کی وجہ سے میں کبھی خود کو تنہا محسوس نہیں کرتی۔‘

سوئیڈن سے تعلق رکھنے والے ماہر امراض چشم ہینرک شوگرین نے اس بیماری پر کافی تحقیق کی اسی لیے اس سینڈروم کا نام انہی کے نام پر رکھا گیا۔

23 جولائی 2009 کو ہینرک شوگرین کی سالگرہ کے موقع پراس دن کو ’انٹرنیشنل شوگرینز سنڈروم ڈے‘ کے طور پر منسوب کیا گیا جس کے بعد سے ہر سال 23 جولائی کو اس بیماری کے بارے میں لوگوں میں آگاہیپیدا کی جاتی ہے۔

شوگرین سینڈروم سے خواتین ذیادہ متاثر

ماہرین کے مطابق شوگرین سینڈروم سے خواتین ذیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس بیماری کے 10 میں سے نو مریض خواتین ہوتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ بیماری 40سال سے زیادہ عمر کی خواتین میں زیادہ پائی جاتی ہے تاہم کسی بھی عمر کے مرد اور خواتین یہ بیماری لاحق ہو سکتے ہیں۔

شوگرین سینڈروم
Getty Images

انڈیا میں شوگرین سنڈروم کے متاثرہ مریضوں کے بارے میں کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے تاہمکہا جاتا ہے کہ تقریباً ہر 100 میں سے ایک شخص کو یہ مسئلہ ہو سکتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس بیماری کے تقریباً چار سے 30 لاکھ مریض ہیں۔

تمل ناڈو میں واقع کرسچن میڈیکل کالج کے شعبہ کلینکل امیونولوجی اور ریمیٹولوجی کے ڈاکٹر دیباشیش کا کہنا ہے

’دنیا کی کل آبادی کا 0.25 حصہ اس کا شکار ہے۔ اگراس مرض کی بروقت تشخیص ہو جائے تو مزید کیسز سامنے آئیں گے۔‘

ان کے مطابق انڈیا میں ہر ایک کروڑ کی آبادی میں سے 25 ہزار افراد کو یہ مرض لاحق ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ انڈیا کی کل آبادی میں سے ساڑھے تین لاکھ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts