سندھ کے قدیم شہر روہڑی میں ہر سال آٹھ محرم الحرام کو نو ڈھالہ تعزیہ برآمد ہوتا ہے جس میں شمع گل کا ماتم کیا جاتا ہے۔ خیال ہے کہ یہاں صدیوں سے پاکستان بھر سے زائرین شرکت کر رہے ہیں جس کے لیے اب خصوصی ٹرینز بھی چلائی جاتی ہیں۔ یہاں شرکت کرنے والے ہزاروں لوگ ’امام حسین کے مہمان‘ سمجھے جاتے ہیں۔
’ہم بچپن سے یہ سوز و ماتم دیکھتے بڑے ہوئے ہیں یہ ہمارے معمول اور کلچر کا حصہ بن چکا ہے، ہر سال تین روز یہاں ہزاروں لوگ آتے ہیں اور ہم ان کے میزبان بنتے ہیں۔ ہماری روایت میں ویسے ہی مہمان کا اعلیٰ مقام ہے، یہ تو امام حسین کے مہمان ہوتے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے نوبت علی کا جو روہڑی کے رہائشی ہیں اور ہر سال نو ڈھالہ تعزیے کے جلوس میں شرکت کرتے ہیں۔
سندھ کے شمالی ضلع سکھر کے قدیم شہر روہڑی میں ہر سال آٹھ محرم الحرام کو نو ڈھالہ تعزیہ برآمد ہوتا ہے جس میں شمع گل کا ماتم کیا جاتا ہے۔
خیال ہے کہ یہاں صدیوں سے پاکستان بھر سے زائرین شرکت کر رہے ہیں جس کے لیے اب خصوصی ٹرینز بھی چلائی جاتی ہیں۔
روہڑی اور سادات
سندھ میں روہڑی شہر کی بنیاد عرب حکمرانی کے دوران اس وقت پڑی جب سنہ 962 میں ایک زلزلے کی وجہ سے دریائے سندھ نے اپنا رُخ تبدیل کیا۔ تجارتی مرکز اروڑ کی بندرگاہ غیر آباد ہوگئی جس کے بعد روہڑی کی بندرگاہ بنائی گئی۔
تاریخ نویس رحیم داد مولائی شیدائی ’تاریخِ سکھر‘ میں لکھتے ہیں کہ دلی کے سلطان علا الدین خلجی نے رضوی سادات کو روہڑی کے آس پاس جاگیریں دیں تھیں۔ اس خاندان کے صوفی بزرگ صدر الدین شاہ کا مزار سکھر اور روہڑی کے درمیان بکھر کے جزیرے پر واقع ہے۔
روہڑی شہر جس پہاڑی پر آباد ہے وہ دریا سے 50 فٹ اونچی ہے۔ سکھر اور روہڑی جڑواں شہر ہیں۔ یہ دونوں لینسڈاؤن پل اور ایوب پل کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
عراقی فقیر اور زیارت کا قیام
روہڑی کے نو ڈھالہ ماتمی جلوس کی بنیاد رضوی سادات مور شاہ نے رکھی تھی۔ اس امام بارگاہ کی تاریخ پر نظر رکھنے والے امداد حسین شاہ رضوی بتاتے ہیں کہ مور شاہ ہر سال اپنے رفقا کے ساتھ پیدل کربلا امام حسین کے روضے کی زیارت کے لیے جاتے تھے۔ جب وہ صعیف العمر ہوگئے تو پھر انھوں نے روہڑی میں زیارت بنائی۔
روایت ہے کہ عراق سے دو لوگ ان کے پاس پہنچے اور مور شاہ کو بتایا کہ وہ بنی اسد قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے امام حسین اور ان کے خاندان کی تدفین کی تھی۔
ان دونوں بزرگوں نے بتایا کہ انھیں بشارت ہوئی ہے جس کے بعد انھوں نے یہاں ویسا ہی تعزیہ بنایا جیسی امام حسین کی تربت بنائی گئی تھی، یعنی روایت کے مطابق اس پر کھجور کے درخت کی ٹہنیاں اور اوپر ڈھالیں، تلوار اور تیر لگائے گئے تھے۔
روہڑی کے اس تعزیے پر نو ڈھالیں لگائی جاتی ہیں، اس لیے اس کو نو ڈھالہ شبیہ تعزیہ بھی کہا جاتا ہے۔
امداد حسین شاہ بتاتے ہیں کہ جب تعزیہ بنایا گیا تو اس زمانے میں اتنی ڈھالیں تو موجود نہیں تھیں لہذا تعزیے کے لیے سادات گھرانے اپنی ڈھالیں دیتے تھے۔ روایت ہے کہ ایک ڈھال عراقی فقیر اپنے ساتھ لائے تھے۔ اسی طرح تلواریں بھی سادات سے لی جاتی تھیں۔
’اس تعزیے میں ایک تربت بنائی گئی ہے۔ اس کے اوپر کھجور کی ٹہنیوں کا فریم ہوتا ہے، جس پر غلاف ڈالا جاتا ہے جبکہ نیچے لکڑی کا ڈھانچہ ہوتا ہے۔ اس ڈھانچے میں مضبوطی کے حساب سے تبدیلی لائی گئی ہے۔ اس کے اوپر ڈھالیں، تلواریں اور تیر سجائے جاتے ہیں۔‘
مٹی گارے سے بنے مزارات سے امام کے روضے تک
نو ڈھالہ تعزیے کی امام بارگاہ کے منتظمین میں شامل میران شاہ بتاتے ہیں کہ پہلے مسجد بنائی گئی جس کو مسجد کربلا کہتے ہیں جبکہ درگاہ الگ تھی جہاں مور شاہ اور عراقی فقیر کی مزارت تھیں جو پتھر، مٹی اور گارے سے بنی ہوئی تھیں۔ بعد میں دونوں کو اکٹھا کر کے نیا روضہ بنایا ہے جو امام حسین کے روضے کی شبیہ ہے جو سنہ 1992میں تعمیر کیا گیا۔
تعزیے کی تزئین و آرائش میں شریک خدمتگاروں کو کامی کہتے ہیں۔ ان میں لوہار، بڑھئی، درزی اور پالش کرنے والے شامل ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ کاریگر اور خدمت گار نسل در نسل یہ کام کرتے آئے ہیں۔
سید غلام میران شاہ بتاتے ہیں کہ تعزیے کی تیاری کے وقت مسجد کربلا میں باہر دربان مقرر کیے جاتے ہیں جو بغیرکسی کامی کے کسی کو اندر آنے نہیں دیتے ہیں۔
سید احقر شاہ رضوی جو سنہ 2002 سے بطور کامی خدمتگار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ان سے حلف لیا جاتا ہے کہ شبیہ کی تیاری کے مراحل اور اس میں شامل نوادارت کے بارے میں کسی کو آگاہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ روایت کے مطابق ان میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو امام حسین سے منسوب ہیں۔
مور شاہ کی پیدائش 1025 ہجری میں ہوئی اور 1095 ہجری تک وہ زندہ تھے۔ یہ ماتمی جلوس تقریبا 1080 ہجری میں نکالا گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس جلوس کی روایت 367 سال پرانی ہے۔ تاہم بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہ روایت ساڑھے چار سو سال تک پرانی ہو سکتی ہے۔
سید غلام میران شاہ بتاتے ہیں کہ مور شاہ کی پانچ نسلوں تک اولاد نرینہ تھیں۔ اس کے بعد نرینہ اولاد میں سے کوئی نہیں بچا تھا، اس لیے نگران خاندان تبدیل ہوگئے۔
سید غلام حسین شاہ جو روہڑی شہر کے سردار تھے انھوں نے نگرانی اپنی ذمے لی۔ اس کے بعد انھوں نے یہ ذمہ داری حاجی زوار مرتضیٰ شاہ جو لکھنو کے مدرسے سے تعلیم یافتہ تھے ان کے سپرد کی۔
لیکن ان کی بھی اولاد نہیں تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ کہ ’میرے والد پیر محمد شاہ ان کے شاگردوں میں سے تھے۔ ان کو نگرانی سونپی گئی تاہم یہ شرط عائد ہوئی کہ پرمنٹ ان کے پاس رہے گی۔‘
’ان کی ایک بیٹی تھی، یہ پرمنٹ ان کے نام کر دی گئی۔ اس کے بعد یہ پرمنٹ ان کے بیٹے سید رنگل شاہ عرف سید امداد محمد شاہ کے نام ہوئی۔‘
وی سی آر کے بعد تعداد بڑہ گئی
2023 کی مردم شماری کے مطابق روہڑی کی آبادی ساڑھے چار لاکھ کے قریب ہے۔
امداد حسین شاہ کے مطابق ابتدائی دنوں میں سادات گھرانے کافی تعداد میں موجود تھے۔ انھیں مدعو کیا جاتا تھا، اس کے علاوہ پڑوسی اور مضافات کے لوگ بھی جمع ہوجاتے تھے۔ ان دنوں میں کمیونیکیشن محدود ہوتی تھی اور لوگ پیدل، بیل گاڑیوں، گھوڑوں اور اونٹوں پر آتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ شہر میں کاروبار ہندو کمیونٹی کا ہوتا تھا۔ ’وہ بڑے عطیات کرتے، لنگر اور سبیلوں کا انتظام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ گرمیوں میں پنکھے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ جب ٹرینیں آئیں، روہڑی جنکشن بنا اور اس کے علاوہ سڑکیں تعمیر ہوئیں تو لوگوں کی آمد میں اضافہ ہوا۔
لیکن زیادہ تر لوگوں کی آمد میں ایک دم اضافہ اس وقت دیکھا گیا ’جب 1980 کی دہائی میں وی سی آر آیا اور اس تعزیے اور ماتم کی ویڈیو بنیں۔ ان دنوں پی ٹی وی کے انگریزی خبرنامے میں ایک منٹ کی رپورٹ بھی چلی جس کے بعد لوگوں کو اس ماتم اور تعزیے کے بارے میں معلوم ہوا۔‘
میران محمد شاہ کے مطابق قلندر شہباز، شاہ عبدالطیف بھٹائی، سچل سرمت اور صوفی بزرگ بیدل بیکس کی مزارات کے گدی نشین خاندانوں کے لوگ بھی اس میں شریک ہوتے ہیں۔
شمع گل کی روایت
یہ تعزیہ رات کے اندھیرے میں برآمد ہوتا ہے۔ اس موقع پر تمام روشنیاں بجھا دی جاتی ہیں اور اس کو شمع گل کہا جاتا ہے۔
امدا حسین شاہ بتاتے ہیں کہ 19 محرم الحرام کی شب امام حسین نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ صبح کو فیصلہ کن معرکہ ہوگا جس کو جانا ہے، وہ جاسکتا ہے۔ لیکن لوگ نہیں اٹھے۔
اس کے بعد انھوں نے حکم دیا کہ شمع بجھا دیں ہوسکتا ہے کہ روشنی کی وجہ سے کچھ لوگ ان کی نظروں کے سامنے جانا نہ چاہیں۔
جب شمع بجھائی گئی تو ان کے وفادار اور جانثار پھر بھی نہیں گئے۔ شمع گل کا ماتم اس روایت کی یاد میں کیا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی فجر کا وقت تھا، لحاظہ اس تعزیے کو بھی اسی وقت برآمد کیا جاتا ہے۔
بجلی آنے سے قبل روہڑی میں جو فانوس ہوتے تھے ان پر میونسپل کے لوگ مختص ہوتے تھے۔ جب شبیہ برآمد ہوتی تھی تو اس کو بجھا دیتے تھے۔ جبکہ عام لوگ بھی روشنی نہیں کرتے تھے۔
اب جب بجلی آئی ہے تو اس جلوس کے راستے میں بجلی بند کر دی جاتی ہے، جب تک تعزیے کو رکھا نہیں جاتا۔
روہڑی کی تنگ گلیاں اور مشکلات
روہڑی کے قدیم شہر کی تنگ گلیوں سے یہ جلوس برآمد ہوتا ہے۔
احقر شاہ رضوی بتاتے ہیں کہ زائرین میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ گلیوں میں تجاوزات بڑھ رہی ہیں جس کی وجہ سے مشکلات ہوتی ہیں۔ ’بعض گلیاں تو اتنی تنگ ہیں کہ جہاں ہاتھوں پر تعزیے کو اٹھا کر چلنا پڑتا ہے۔‘
امداد حسین بتاتے ہیں کہ گلیوں میں گنجائش نہیں ہوتی ہے، بس کچھ لوگ ہی کھڑے ہوسکتے ہیں۔ لیکن لوگوں کا دباؤ اسی طرف ہوتا ہے۔ ان گلیوں سے نکلنے کے بعد راستہ کھلا ہے جس میں کربلا میدان اور نیشنل ہائی وے بھی آ جاتے ہے۔
انھوں نے بتایا کہ شہر کے ایک حصے میں عزاری ہوتی ہے، باقی ایک دو راستہ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ آمدرفت جاری رہے۔
ایس ایس پی عرفان سموں کئی برسوں تک سکھر میں تعینات رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روہڑی کی گلیاں بہت تنگ ہیں اور یہاں بھگدڑ کا خدشہ رہتا ہے۔ جبکہ شدید گرمی اور حبس بھی ہوتی ہے۔
ان کے مطابق کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن انتظامات کیے جاتے ہیں کیونکہ نیشنل ہائی وے اور موٹر وے قریب ہیں، اس کے علاوہ بلوچستان اور پنجاب بھی نزدیک ہیں۔
اس ماتم میں شرکت کے لیے ایک داخلی راستہ ہوتا ہے جبکہ تین خارجی راستے بنائے جاتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں رضاکار اور سکاؤٹس ہوتے ہیں جبکہ دوسرے میں پولیس اور تیسرا حصار رینجرز کا ہوتا ہے۔
ڈی سی دھاریجو کے مطابق پاکستانی فوج آن کال رہتی ہے اور جلوس کی نگرانی کے لیے تین کنٹرول روم بنائے گئے ہیں۔
سکھر کے سابق ایس ایس پی تنویر تنیو کے مطابق بڑا سکیورٹی چیلینج اس وقت ہوتا ہے جب شمع گل کی جاتی ہے۔ ’کوئی 32 گلیاں ہیں جن کو سکیورٹی کی وجہ سے بند رکھا جاتا ہے۔ جلوس کی ٹائمنگ اتنی دیر تک ہے کہ سکیورٹی کور دینا مشکل ہوتا ہے۔‘
2022 میں جلوس میں بھگدڑ مچنے سے چھ عزادار ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ ڈی سی سکھر ڈاکٹر ایم بی دہاریجو کے مطابق جیسے ہی تعزیہ نکلتا ہے لوگوں کا جمِ غفیر امڈ آتا ہے۔
انھوں نے منتظمین کو کہا ہے کہ ’جیسے جلوس نکالتے ہیں، لوگوں کی موجودگی کو کم از کم رکھا جائے تاکہ اس قسم کے واقعات سے بچا جائے۔ اس کے علاوہ پنکھوں کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے اور قریب ایمبولینسیں بھی دستیاب ہوں گی۔‘
ڈی سی دھاریجو کے مطابق جلوس کے برآمد ہونے کے اگلے دو سے پانچ منٹ اہم ہوتے ہیں کیونکہ یہ وقت ہوتا ہے جب تعزیہ تنگ گلی میں ہوتا ہے اور لوگ اس طرف جانا چاہتے ہیں۔
تعزیے کا سفر صرف آدھا کلومیٹر ہوتا ہے لیکن اس کو تین سے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔