عمران خان اور شاہ محمودقریشی پر فرد جرم 12 دسمبر کو عائد کی جائے گی اور وہ صحافی جنھیں ابھی تک جیل کے اندر نہیں بلایا گیا وہ اس امید کے ساتھ 12 دسمبر کی صبح جیل کے باہر پہنچ جائیں گے کہ شائد اب کی بار جج اپنے فیصلے پر عمل کرواتے ہوئے انھیں اندر بلا لیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر مقدمے کی سماعت راولپنڈی اڈیالہ جیل میں پیر کے روز ہونا تھی تو مجھ سمیت مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے ارکان اس یقین کے ساتھ جیل کے اندر ہونے والی اس عدالتی کارروائی کو دیکھنے کی خواہش لیے اڈیالہ جیل کے باہر صبح سویرے ہی پہنچ گئے کہ آج تو اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج ابوالحسنات ذوالقرنین اپنے فیصلے میں عمل درآمد کرتے ہوئے باقی میڈیا کے ارکان کو بھی جیل کے اندر جانے کی اجازت دیں گے جنھیں سنیچر کے روز ہونے والی سماعت کے دوران ’جیل کے حکام‘ نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کمرۂ عدالت میں جانے سے روک دیا تھا۔
لیکن یہ کیا کہ آج بھی وہی عمل دہرایا گیا جو گذشتہ سماعت کے دوران دہرایا گیا تھا۔
آج اور سنیچر کے روز ہونے والی کارروائی میں فرق یہ تھا کہ پہلی سماعت کی کوریج کے لیے تین صحافیوں کو لے جایا گیا لیکن اس مرتبہ مقامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے چھ افراد کو جیل کے اندر قائم عدالت کی کارروائی دیکھنے کی اجازت دی گئی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ آج کی عدالتی کارروائی کی کوریج کرنے والے صحافیوں کی آدھی تعداد ایسی تھی جنھیں عدالتی کارروائی کور کرتے ہوئے پہلے نہیں دیکھا گیا۔
جیل سپرٹینڈنٹ کی طرف سے آج کی عدالتی کارروائی کے لیے فوکل پرسن کو تبدیل کر دیا اور عمران نامی ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ کو فوکل پرسن مقرر کر دیا لیکن نتیجہ دونوں سماعتوں میں ایک ہی جیسا تھا یعنی جن صحافیوں کو کمرۂ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی ان کی فرسٹریشن میں اضافہ۔

اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج ابوالحسنات ذوالقرنین آج بھی اپنی گاڑی خود چلا کر اڈیالہ جیل پہنچے اور انھوں نے گیٹ کے باہر موجود صحافیوں کو دیکھا لیکن آج ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی جس طرح گذشتہ سماعت پر تھی بلکہ آج ان کے چہرے پر سنجیدگی تھی جس کا صحافیوں نے یہ نتیجہ اخد کیا کہ شائد متعلقہ جج سنیچر کو ہونے والی عدالتی کارروائی میں صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے سنجیدہ ہیں لیکن صحافیوں کا یہ نتیجہ بھی خام خیالی سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔
ملکی اور بین الاقوامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے جنھیں کمرۂ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی وہ اس امید کے ساتھ جیل کے باہر انتظار کرتے رہے کہ شائد ان کا بھی اندر جانے کا بلاوا آجائے لیکن دو گھنٹوں کے انتظار کے بعد جب اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو صحافی بظاہر جیل کے عملے کو برا بھلا کہتے ہوئے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔
جن چھے صحافیوں کو اندر لے جایا گیا ان میں مقامی صحافی ثاقب بشیر بھی شامل تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ان کی تلاشی لینے اور ہاتھ پر کلیئرنس کی مہر لگانے کے بعد کمرۂ عدالت میں لے جایاگیا تو انھوں نے اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ابھی بھی 20 سے 25 صحافی جیل کے باہر موجود ہیں جن میں مقامی اور انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندے بھی موجود ہیں وہ سارے اس انتظار میں ہیں کہ انھیں بھی اندر بلایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ اڈیالہ جیل کے سپرنٹیڈنٹ اسد جاوید وڑائچ جج کی کرسی کے ساتھ کھڑے تھے تو جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو دیکھیں لیکن ثاقب بشیر کے بقول جیل سپرنٹینڈنٹ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
’صحافیوں کو اندر بلانے کا فیصلہ کہیں اور سے ہوتا ہے‘

انھوں نے بتایا کہ پانچ منٹ کے وقفے کے بعد جب جج کی توجہ اس جانب دوبارہ مبذول کروائی گئی تو انھوں نے دوبارہ اسی طرح کا ’جیسچر‘ دیا لیکن اس مرتبہ بھی ان کے حکم کا نتیجہ پہلے سے مختلف نہیں تھا یعنی کال کے منتظر صحافیوں کو اندر نہیں بلایا گیا۔
اور پھر اس طرح ملزمان عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر مقدمے میں اب تک ہونے والیتفتیش کی نقول فراہم کردی گئیں۔
اڈیالہ جیل کی انتظامیہ سے رابطہ کر کے جب پوچھا گیا کہ وہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کیوں نہیں کرتے یعنی وہ صحافیوں کو اندر آنے کی اجازت کیوں نہیں دیتے تو حکام کا کہنا تھا کہ صحافیوں کو اندر بلانے کا فیصلہ ان کا نہیں بلکہ کہیں اور سے ہوتا ہے اور جب ’کہیں اور‘ کے بارے میں پوچھا گیاتو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سب کو معلوم ہے۔
آج کی عدالتی کارروائی میں پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان سب سے پہلے وکلا ٹیم کی جانب سے اڈیالہ جیل پہنچنے۔ بابر اعوان کے بارے میں سوشل میڈیا پر یہ مہم چلائی گئی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے جن وکلا سے ملنے سے انکار کیا ان میں بابر اعوان بھی شامل تھے۔
’پانچ اگست اور چار دسمبر کے عمران خان میں کوئی فرق نہیں‘

ثاقب بشیر کے مطابق سماعت کے دوران عمران خاننے نیلے رنگ کی جرسی اور گرے رنگ کا ٹریک سوٹ کا پاجامہ پہنچا ہواتھا اور وہ اسی طرح متحرک تھے جس طرح اس سال اگست میں متحرک دکھائی دیتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان سماعت کے دوران وکلا کو مختلف معاملات میںہدایات دے رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں جس طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سابق لیڈر شب یعنی جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے اس کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’پانچ اگست اور چار دسمبر کے عمران خان میں کوئی فرق نہیں‘
صحافی ثاقب بشیر کے بقول عمران خان بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں کو بھی کمرۂ عدالت میں دیکھنا چاہتے ہیں اور جس کے بارے میں ان کے وکلا کی جانب سے بھی عدالت کو بارہا کہا گیا کہ ان صحافیوں کو کمرۂ عدالت میں لایا جائے لیکن اس پر بھی عدالت نے کوئی حکم جاری نہیں کیا۔
انھوں نے کہا کہ عمران خان کو شائد اس بات کا اندازہ ہے جس طرح انٹرنیشنل میڈیا ان کے موقف کی کوریج کرتا ہے اس طرح مقامی میڈیابعض مصلحتوں کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر ہے۔
سنیچر کے روز ہونے والی سماعت میں جس مقامی صحافی نے عدالت میں جج کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہا کہ بڑی تعداد میں صحافی جیل کے گیٹ پر موجود ہیں انھیں آج کمرۂ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور وہاں پر تعینات عملے نے انھیں محاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا نام لسٹ میں نہیں ہے حالانکہ اس وقت تک ان افراد اور صحافیوں کی لسٹ منظوری کی لیے اندر گئی ہی نہیں تھی۔
عمران خان اور شاہ محمودقریشی پر فرد جرم 12 دسمبر کو عائد کی جائے گی اور وہ صحافی جنھیں ابھی تک جیل کے اندر نہیں بلایا گیا وہ اس امید کے ساتھ 12 دسمبر کی صبح جیل کے باہر پہنچ جائیں گے کہ شائد اب کی بار جج اپنے فیصلے پر عمل کرواتے ہوئے انھیں اندر بلالیں لیکن گذشتہ سماعتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ سماعت پر بھی حالات اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔