بلوچستان میں پنجاب کے مسافروں کا قتل: ’ایک گھر سے بیک وقت تین جنازوں کے اٹھنے کا صدمہ بیان نہیں کیا جاسکتا‘

یہ کہانی ہے پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو جوان بھائیوں جابر نذیر اور عثمان نذیر کی جو اپنے والد کی تدفین کے لیے اپنے آبائی علاقے دنیا پور جا رہے تھے لیکن جمعرات کی رات کو نامعلوم مسلح افراد نے بلوچستان کے ضلع ژوب میں دیگر سات مسافروں کے ساتھ فائرنگ کرکے انھیں بھی ہلاک کر دیا۔

دونوں بھائی اپنے والد کا آخری دیدار کرنے اور ان کی میت کو کندھا دینے کے لیے ایمرجنسی میں جمعرات کو ایک مسافر بس میں کوئٹہ سے پنجاب کے لیے روانہ ہوئے تھے لیکن یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔

یہ کہانی ہے پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو جوان بھائیوں جابر نذیر اور عثمان نذیر کی جو اپنے والد کی تدفین کے لیے اپنے آبائی علاقے دنیا پور جا رہے تھے لیکن جمعرات کی رات کو نامعلوم مسلح افراد نے بلوچستان کے ضلع ژوب میں دیگر سات مسافروں کے ساتھ فائرنگ کرکے انھیں بھی ہلاک کر دیا۔

شدید صدمے سے دوچار ان کے بھائی صابر نذیر نے فون پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ایک پیارے کے ہمیشہ کے لیے بچھڑنے کا صدمہ برداشت نہیں ہوتا لیکن ہمارےگھر سے تو ایک ہی روز میں تین جنازے اٹھے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ہی دن میں بیک وقت تین جنازوں کے اٹھنے کا جو صدمہ ہے اس کو الفاظ میں بیان تونہیں کیا جاسکتا لیکن ہم اسے اللہ کی مرضی اور رضا سمجھتے ہیں۔‘

صابر کے مطابق ان کے والد کی نمازِ جنازہ جمعے کی صبح جبکہ دونوں بھائیوں کی آخری رسومات جمعے کی شام کو ادا کی گئیں تھیں۔

فائرنگ کے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے ژوب کے اسسٹنٹ کمشنر نوید عالم کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد ان مسافروں کو دو بسوں سے اتار کر گولیاں مار کر ہلاک کیا۔

مارے جانے والے تمام افراد کی لاشوں کو ان کے آبائی علاقوں تک پہنچانے کے لیے تمام افراد کی لاشوں کو جمعے کے روز صوبہ پنجاب کے حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔

بلوچستان
Getty Images
ژوب کے اسسٹنٹ کمشنر نوید عالم کا کہنا تھا کہ مسلح افراد نے شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد ان مسافروں کو دو بسوں سے اتار کر گولیاں مار کر ہلاک کیا

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’نہتے مسافروں کا قتل کھلی دہشتگردی ہے، پاکستانی شناخت پر معصوموں کا قتل ناقابل معافی جرم ہے اور حکومت اس کا سخت جواب دے گی۔‘

مارے جانے والے دونوں بھائی کون تھے؟

ژوب میں دیگر سات افراد کے ساتھ مارے جانے والے دونوں بھائیوں کی شناخت جابر نذیر اور عثمان نذیر کے ناموں سے ہوئی تھی۔

ان کا تعلق پنجاب کے علاقے دنیا پور سے تھا۔ وہ دونوں جوان تھے لیکن تاحال ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔

ان کے بھائی صابر نذیر نے فون پر بتایا کہ جابر نذیر ان سے بڑے تھے اور ان کی منگنی ہو چکی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے دونوں بھائی چھ، سات سال قبل کاروبار کی غرض سے کوئٹہ گئے تھے اور وہاں انھوں نے برتنوں کی ایک دکان کھولی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’والد کی وفات کی خبر سُن کر دونوں بھائی وہاں سے بس میں روانہ ہوئے تاکہ جمعے کی صبح وہ والد کا آخری دیدار کرنے کے علاوہ ان کی میت کو کندھا دے سکیں، لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی کیونکہ ان کو پہلے ہی بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔‘

’ایک ہی روز میں ہمارے گھر سے تین جنازے اٹھے‘

صابر نذیر نے مزید بتایا کہ ’والد کے جنازے کو کندھا دینے کے بجائے دونوں بھائیوں کی لاشیں ہمارے گھر پہنچیں اور ایک ہی دن میں چند گھنٹوں کے وقفے سے ہمارے گھر سے تین پیاروں کے جنازے اٹھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ والد اور بھائیوں کی تدفین ایک ساتھ نہیں ہوسکی کیونکہ بھائیوں کی لاشیں پہنچنے میں تاخیر ہو رہی تھی جس کے پیشِ نظر والد کی تدفین صبح کی گئی جبکہ دونوں بھائیوں کی تدفین شام کو کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس ملک کے لیے پہلے ہمارے اکابرین نے قربانی دی اب ہمارے نوجوان اس کی بقا کے لیے قربانی دے رہے ہیں۔‘

یہ واقعہ کہاں پیش آیا اور اس کے بارے میں حکام اور عینی شاہدین نے کیا بتایا؟

جمعرات کے روز ضلع ژوب میں پنجاب اور بلوچستان کے درمیان شاہراہ پر ناکہ بندی کے علاوہ مسلح افراد نے قلات اور مستونگ میں بھی قومی شاہراہوں پر ناکہ بندی کی تھی۔

ضلع مستونگ اور بلوچستان کے بعض دیگرعلاقوں میں معدنیات لے جانے والی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا، تاہم ژوب کے علاوہ کسی اور مقام پر انسانی جانوں کے نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

بلوچستان
Getty Images
اگست 2024 کے دوران بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل میں مسلح افراد نے کئی بسوں کو روکا، شناختی کارڈ دیکھ کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کو الگ کر کے نیچے اتارا اور انھیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا

سرکاری حکامکے مطابق افغانستان اور خیبرپختونخوا سے ملحقہ بلوچستان کے سرحدی ضلع ژوب میں سرہ ڈاکئی کے علاقے میں ناکہ بندی کے دوران مسافروں کو بسوں سے اتارا گیا تھا۔

اسسٹنٹ کمشنر ژوب نوید عالم نے بتایا کہ جمعرات کے روز شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب کوئٹہ سے پنجاب جانے والی دو مسافر بسوں کو اس علاقے میں نامعلوم مسلح افراد نے روکا اور ان میں سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مسافروں کو اتارا۔

’ان میں سے دو افراد کو ایک اور سات کو دوسری مسافر بس سے اتارا گیا۔ اس کے بعد ان کو قریب میں ایک نالے میں لے جایا گیا جہاں سب کو گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا۔ گولیاں ان کے جسم کے مختلف حصوں میں لگی تھیں۔‘

اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر دو ویڈیوز بھی گردش کر رہی تھیں جن کی اسسٹنٹ کمشنر نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اسی واقعے کی ہیں۔

ان ویڈیوز میں مسلح افراد کی جانب سے روکی جانے والی مسافر بسوں میں سے ایک کا ڈرائیور یہ بتا رہا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے شاہراہ کو سرہ ڈاکئی کے مقام پر بند کیا تھا۔

ڈرائیور نے مزید بتایا کہ مسلح افراد نے ایک بس سے دو مسافروں کو جبکہ دوسری بس سے سات مسافروں کو اتارا۔

ایک اور ویڈیو میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان مسافر بتا رہے ہیں کہ جس بس میں وہ سوار تھے مسلح افراد نے اس میں سے ایک، ایک کرکے مسافروں کے شناختی کارڈز کو دیکھا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ بس کی فرنٹ کی سیٹوں پر بیٹھے تھے۔

’مسلح افراد نے میرے شناختی کارڈ کو دیکھا لیکن مجھے چھوڑ دیا جبکہ بس میں سے بعض مسافروں کو اتار دیا۔ اتارے جانے والے مسافروں کے چلے جانے کے بعد انھوں نے فائرنگ کی آواز سنی۔‘

انھوں نے بتایا کہ روڈ کے کھلنے کے بعد جب بس روانہ ہوئی تو وہ لوگ بس میں نہیں تھے جن کو مسلح افراد نے اتارا تھا۔

سرکاری حکام کے مطابق بعض مسافروں نے یہ بتایا کہ مسلح افراد پڑھے لکھے نظر آ رہے تھے اور بعض مسافروں سے انھوں نے انگریزی زبان میں بھی بات کی۔

اس واقعے کا مقدمہ ژوب میں سی ٹی ڈی تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

بلوچستان
Getty Images
سرکاری حکام کے مطابق بعض مسافروں نے یہ بتایا کہ مسلح افراد پڑھے لکھے نظر آ رہے تھے اور بعض مسافروں سے انھوں نے انگریزی زبان میں بھی بات کی

سی ٹی ڈی کے ترجمان کے مطابق مقدمہ ایس ایچ او لیویز تھانہ مرغہ کبزئی محمد یسینکی مدعیت میں انسداددہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔

واقعے کے بعد اعلیٰ سطحی اجلاس

اس واقعے کے تناظر میں کوئٹہ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت امن و امان سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔ جس میں سرہ ڈاکئی واقعہ پر آئی جی پولیس بلوچستان نے تفصیلی بریفنگ دی۔

اجلاس کے بعد جاری ہونے والے ایک اعلامیے کے مطابق وزیر اعلیٰ نے واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں معصوم جانوں کے قاتل کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کو ہر حال میں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور ان کا تعاقب آخری حد تک کیا جائے گا۔

سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ریاست ان قاتلوں کو زمین کے اندر بھی چھپنے نہیں دے گی، دہشتگردی کے ہر منصوبے کو طاقت، عزم اور اتحاد سے کچلیں گے۔

ڈیرہ غازی خان کے راستے پنجاب اور بلوچستان کے درمیان شاہراہ پر یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں

بلوچستان اور پنجاب کے درمیان ریل کے علاوہ مختلف زمینی راستوں سے بھی آمدورفت ہوتی ہے لیکن ڈیرہ غازی خان کے راستے بلوچستان اور پنجاب کے درمیان شاہراہ پر سفر کسی اور شاہراہ کے مقابلے میں کم وقت میں طے ہوتا ہے۔

بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد لورالائی اور ڈیرہ غازی خان کے درمیان اس شاہراہ پر سنگین بدامنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں، لیکن ابتدا میں اس شاہراہ پر کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے لورالائی اور ڈیرہ غازی خان کے درمیان سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں کے علاوہ ان مال بردار گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا رہا جو کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کوئلہ پنجاب لے کر جاتی تھیں۔

تاہم گزشتہ ڈیڑھ، دو برسوں سے اس شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں کو نشانہ بنانے کے علاوہ مسافروں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔

گذشتہ برس اگست کے مہینے میں اس شاہراہ پر ضلع موسیٰ خیل میں مسلح افراد کی جانب سے متعدد گاڑیوں سے 22 افراد کو اتارنے کے بعد ان کو گولیاں مارکر ہلاک کیا گیا تھا۔ ان میں سے 20 کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے تھا۔

اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts