نیو دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال گرفتار: اب دلی حکومت اور عام آدمی پارٹی کیسے چلے گی؟

دلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو دہلی حکومت کی نئی ایکسائز پالیسی میں مبینہ بے ضابطگیوں کے سلسلے میں جمعرات کی رات گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن انڈیا الائنس کے رہنماؤں نے اروند کیجریوال کی گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔

نیو دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو جمعرات کی رات کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کی گرفتاری دہلی حکومت کی نئی ایکسائز پالیسی میں مبینہ بے ضابطگیوں کے مقدمے میں عمل میں لائی گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ان الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ سنہ 2022 میں دلی حکومت کی طرف سے شراب پالیسی نافذ کی گئی تھی، جس نے دارالحکومت میں شراب کی فروخت پرحکومت کا کنٹرول ختم کر دیا تھا، جس سے مبینہ طور پر نجی خوردہ فروشوں کو ناجائز فائدہ پہنچا۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے عام آدمی پارٹی کے اہم رہنما، دلی کے سابق وزیر صحت ستیندر جین، دلی کے سابق نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا اور راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’گرفتار دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو جمعہ کو ہی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ پولیس تفتیش کے لیے ان کی تحویل کی استدعا کرے گی۔

خیال رہے کہ بدعنوانی کے خلاف تحریک سے سرخیوں میں آنے والے اروند کیجریوال نے تقریباً 11 سال قبل سیاسی نظام کو صاف کرنے اور ترقی کا وعدہ کرتے ہوئے سیاست میں قدم رکھا تھا۔

جب عام آدمی پارٹی کے تمام سرکردہ لیڈر جیل میں ہیں تو یہ ایک بڑا سوال ہے کہ پارٹی اور دلی حکومت کیسے چلے گی۔

اس وقت بڑا چیلنج ایک متبادل مگر قابل قیادت کی تلاش ہو گی جو کیجریوال کی غیر موجودگی میں دلی میں پارٹی اور حکومت کو سنبھال سکے۔

عام آدمی پارٹی دلی، پنجاب، ہریانہ اور گجرات میں اپنی انتخابی مہم شروع کرنے والی تھی اور کجریوال اس کے سٹار کمپینر تھے۔

کچھ رپورٹس میں کہا گیا کہ گرفتاری کے خوف کے درمیان قیادت کے لیے جن ناموں پر بات کی گئی ان میں اروند کیجریوال کی اہلیہ سنیتا کیجریوال، دلی حکومت کے وزیر آتشی سنگھ اور سوربھ بھردواج شامل ہیں۔

دلی حکومت میں آتشی تعلیم، مالیات، پی ڈبلیو ڈی، محصول سمیت بیشتر محکموں کے لیے ذمہ دار ہے۔ وہ کیجریوال کے قریبی مانے جاتے ہیں۔

اسی طرح سوربھ بھردواج بھی دلی کابینہ کے اہم رکن ہیں اور صحت اور شہری ترقی جیسے کئی اہم محکموں کو سنبھال رہے ہیں۔

تاہم آتشی اور سومناتھ بھارتی نے صحافیوں کو بتایا کہ اروند کیجریوال وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ نہیں دیں گے۔

آتشی نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ جیل سے ہی حکومت چلائیں گے۔ کوئی قانون انھیں جیل سے حکومت چلانے سے منع نہیں کرتا کیونکہ انھیں سزا نہیں ہوئی ہے۔ کیجریوال وزیر اعلیٰ تھے، ہیں اور رہیں گے۔

کیجریوال کی گرفتاری

جمعرات کی شام جب انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی ٹیم دہلی کے وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ پر پہنچی تو قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ اروند کیجریوال کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

رات تقریباً 9 بجے پارٹی لیڈر آتشی نے اروند کیجریوال کی گرفتاری کی تصدیق کی اور کہا کہ پارٹی نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے اس معاملے میں فوری سماعت کی اپیل کی ہے۔

عام آدمی پارٹی کے رہنما سوربھ بھردواج نے کہا کہ سپریم کورٹ میں رات ہی میں ایک پیٹیشن دائر کر دی گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ کی مکمل تلاشی لی گئی۔ صرف 70,000 روپے نقد ملے، جسے ای ڈی نے واپس کر دیا۔ وزیراعلیٰ کا موبائل فون چھین کر انھیں گرفتار کر لیا گیا، پورے چھاپے میں کوئی غیر قانونی رقم، دستاویز یا ثبوت نہیں ملا۔‘

دلی پولیس نے عام آدمی پارٹی کے کئی کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کیجریوال کو ساتھ لے گئی۔

https://twitter.com/RahulGandhi/status/1770854468717863353?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1770854468717863353%7Ctwgr%5E2df18f3429e75c8c55622d62d7f8c2a215d4a643%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Fhindi%2Flive%2Findia-68633822

سیاسی ردعمل

اس دوران عام آدمی پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو گئی اور انھوں نے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ دلی پولیس نے وزیر اعلیٰ کی رہائش گاہ کے باہر دفعہ 144 نافذ کر دی تھی۔

نیو دہلی کے وزیر گوپال رائے نے اسے ’جمہوریت کا قتل‘ قرار دیا۔ پارٹی کے راجیہ سبھا رکن راگھو چڈھا نے کہا کہ ’ہندوستان میں ایک غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہے۔‘

اس سے قبل انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے اروند کیجریوال کو آٹھ بار سمن جاری کیا تھا۔ گذشتہ سال نومبر اور دسمبر میں دو، اس سال جنوری میں دو، فروری میں تین اور مارچ میں ایک سمن جاری کیا گیا تھا۔ ان تمام سمن میں کیجریوال ایک بار بھی پوچھ گچھ کے لیے نہیں گئے۔

اروند کیجریوال نے گرفتاری سے عبوری ضمانت کے لیے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، جسے عدالت نے جمعرات کو مسترد کر دیا۔ اس درخواست کی سماعت بھی جمعہ کو ہونی ہے۔

بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ روی شنکر پرساد نے کہاکہ ’یہ ایک قانونی عمل ہے جو بدعنوانی کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کے مقصد سے کیا جا رہا ہے، جس میں انہیں عدالت سے بھی کوئی راحت نہیں ملی۔ قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے۔‘

دوسری جانب اپوزیشن انڈیا الائنس کے رہنماؤں نے اروند کیجریوال کی گرفتاری کی شدید مذمت کی ہے۔

کانگریس کے رہنما پون کھیڑا نے کہا کہ 'وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ہندوستانی اتحاد ہل جائے گا یا پٹڑی سے اتر جائے گا، وہ غلط ہیں۔ ان اقدامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی کو شکست کا سامنا ہے۔'

کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے ایکس پر لکھاکہ ’خوف زدہ ڈکٹیٹر‘ مردہ جمہوریت بنانا چاہتا ہے۔ بھارت کا اتحاد اس کا منہ توڑ جواب دے گا۔

کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے کیجریوال کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی مغرور ہو گئی ہے اور ہر روز لوک سبھا انتخابات میں اپنی جیت کے کھوکھلے دعوے کر رہی ہے۔ انتخابات سے پہلے وہ ہر روز غیر قانونی طریقوں سے اپوزیشن کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا کہ کیجریوال کو سیاسی انتقام کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ ملک میں بڑھتی آمریت کی علامت ہے۔

https://twitter.com/MehboobaMufti/status/1770861914349785525?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1770861914349785525%7Ctwgr%5E2df18f3429e75c8c55622d62d7f8c2a215d4a643%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.bbc.com%2Fhindi%2Flive%2Findia-68633822

کیجریوال کا دلچسپ سیاسی سفر

کیجریوال، ایک انڈین ریونیو سروس کے افسر اور آئی آئی ٹی کے طالب علم نے 2011 کی انسداد بدعنوانی تحریک میں اپنا سیاسی میدان تیار کیا تھا۔

سنہ 2002 کے ابتدائی مہینوں میں، کیجریوال نے انڈین ریونیو سروس سے چھٹی لے کر دہلی کے سندر نگری علاقے میں سرگرمیاں شروع کر دیں تھیں۔

یہیں پر کیجریوال نے ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی جس کا نام 'پریورتن' تھا۔

ان کی پہلی بڑی پہچان سنہ 2006 میں اس وقت ہوئی جب انہیں 'ایمرجنگ لیڈرشپ' کے لیے رامون میگسیسے ایوارڈ دیا گیا۔

سنہ 2010 میں دہلی میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمز کے انعقاد میں مبینہ گھپلے کی خبریں میڈیا میں آنے کے بعد لوگوں میں بدعنوانی کے خلاف غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ سوشل میڈیا پر انڈیا اگینسٹ کرپشن مہم شروع ہوئی اور کیجریوال اس کا چہرہ بن گئے۔

کجریوال نے اپنا پہلا بڑا احتجاج جولائی 2012 میں جنتر منتر پر 'انا ہزارے کی رہنمائی میں' شروع کیا۔

26 نومبر 2012 کو کیجریوال نے اپنی پارٹی کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا۔

کیجریوال نے کہا کہ ان کی پارٹی میں کوئی ہائی کمان نہیں ہوگا اور وہ عوامی پیسوں سے عوامی مسائل پر الیکشن لڑیں گے۔

جب کجریوال نے سیاست کا راستہ چنا تو ان کے گرو انا ہزارے نے بھی کہا کہ وہ اقتدار کی راہ پر چل پڑے ہیں۔

ابتدائی دنوں میں اروند کو جو کچھ مل رہا تھا، وہ اسے پارٹی سے جوڑ رہے تھے۔ ان کی یہی تنظیمی صلاحیت بعد میں ان کی سب سے بڑی طاقت بن گئی۔ کیجریوال نے ایسے رضاکاروں کو بھرتی کیا جو بھوکے رہتے ہوئے بھی ان کے لیے کام کرنے کے لیے تیار تھے۔ لاٹھیاں کھانے کے لیے تیار تھے۔

ان رضاکاروں کے زور پر کیجریوال نے 2013 میں دہلی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ سیاست میں قدم رکھنے والی ان کی پارٹی نے 28 نشستیں حاصل کیں۔

خود کجریوال نے نئی دہلی سیٹ سے اس وقت کی وزیر اعلیٰ شیلا دکشت کو پچیس ہزار سے زیادہ ووٹوں سے شکست دی۔ لیکن انہیں شیلا دکشت کی کانگریس پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑی۔

کیجریوال جنالکوپال بل کو جلد از جلد پاس کروانا چاہتے تھے۔ لیکن مخلوط حکومت میں شراکت دار کانگریس تیار نہیں تھی۔ بالآخر 14 فروری 2014 کو کیجریوال نے دہلی کے وزیراعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ سڑکوں پر آگئے۔

لوک سبھا کے انتخابات چند ماہ بعد ہی ہونے تھے۔ کیجریوال بنارس پہنچے لیکن بنارس میں کیجریوال تین لاکھ ستر ہزار سے زیادہ ووٹوں سے ہار گئے۔

لیکن اگلے ہی سال، کیجریوال نے دہلی کے اسمبلی انتخابات میں 70 میں سے 67 ووٹ حاصل کرکے تاریخ رقم کی اور 14 فروری 2015 کو دوبارہ دہلی کے وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا۔

اس دوران قومی سیاست میں عام آدمی پارٹی کا قد بڑھ گیا ہے اور اس کے ساتھ کیجریوال کا بھی۔

پنجاب میں ان کی حکومت ہے۔ دہلی کے ایم سی ڈی انتخابات میں جہاں پارٹی کو اکثریت ملی، وہیں یوپی کے میونسپل انتخابات میں پارٹی کے تقریباً 100 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔

گجرات اسمبلی انتخابات میں بھی ان کی پارٹی کو گذشتہ بار نصف درجن سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی ملی تھی اور اس کے امیدواروں کو کئی جگہوں پر اچھی حمایت ملی تھی۔

گذشتہ سال ہی الیکشن کمیشن نے عام آدمی پارٹی کو قومی پارٹی کا درجہ دیا تھا۔

انڈیا اتحاد میں شامل ہو کر، عام آدمی پارٹی اب قومی سطح پر اپنا قد بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.