12 سالہ فلسطینی بچی جس نے پورا خاندان کھو دیا: ’میں نے کمبل اٹھایا تو میرے ننھے بھائی کا سر کٹا ہوا تھا‘

یہ 2 دسمبر 2023 کی صبح ہے، اور 12 سالہ الما جارور غزہ شہر کے مرکز میں ایک پانچ منزلہ عمارت کے ملبے تلے تین گھنٹے سے زائد عرصے سے دبی ہوئی ہیں۔اس کی درد میں ڈوبی چیخیں زمین کے اندر سے آتی ہیں۔’میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو دیکھنا چاہتی ہوں۔‘

اس مضمون کا کچھ حصہ بعض قاریئن کے لیے صدمے کا باعث ہو سکتا ہے!

ایک فلسطینی ریسکیو کے ذریعے ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں ٹوٹے ہوئے کنکریٹ کے ٹیلوں کے نیچے سے ایک چیخ کی آواز سنائی دیتی ہے۔

’میں الما ہوں۔ آپ پہلے میری مدد نہ کریں بلکہ میری امی ابو کی مدد کریں اور ان کے ساتھ میرا 18 ماہ کا بھائی ترازان بھی ہے۔ وہ ایک چھوٹا بچہ ہے۔ آپ پہلے اس کی مدد کریں۔‘

یہ 2 دسمبر 2023 کی صبح ہے، اور 12 سالہ الما جارور غزہ شہر کے مرکز میں ایک پانچ منزلہ عمارت کے ملبے تلے تین گھنٹے سے زائد وقت سے دبی ہوئی ہیں۔ اس کی درد میں ڈوبی چیخیں زمین کے اندر سے آتی ہیں۔

’میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کو دیکھنا چاہتی ہوں۔‘

لیکن امدادی کارکن سب سے پہلے الما تک پہنچتے ہیں اور کنکریٹ اور دھات کی مڑی ہوئی سلاخوں کے درمیان سے اسے باہر نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

وہ مٹی میں اٹی ہوئی ہیں لیکن خوش قسمتی سے انھیں کوئی بڑی چوٹ نہیں آئی۔

جب ان سے اُن کے خاندان کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنے دائیں اور بائیں ملبے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

’میں اس خون کو سونگھ سکتی تھی جو مجھ پر ٹپک رہا تھا‘

اس وڈیو کلپ کے تین مہینے بعد الما نے بی بی سی کو اپنی کہانی تفصیل سے بتائی۔ اس وقت ان کے چچا سمیع پاس ہی بیٹھے تھے۔ وہ جنوبی غزہ میں رفح میں ایک خیمے میں اپنے اور اس کے خاندان کے ساتھ پناہ لیے ہوئے ہیں۔

الما کے الفاظ خوف اور نا قابل تلافی نقصان کی ایک داستان ہیں۔

’میں نے وہ کمبل اٹھایا جس میں میرے ننھے بھائی کو لپیٹا گیا تھا۔ اس کا سر کٹا ہوا تھا۔ میں نے اسے جس حالت میں پایا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔‘

اتنا کہنے کے بعد وہ بہت دیر کے لیے خاموش ہو گئیں۔ دکھ اور صدمے کی پرچھائیاں ان کے چہرے پر واضح تھیں۔

’مجھے یاد ہے کہ میں ملبے کے نیچے ہوش میں تھی۔‘

’میں نے اپنے آئی پیڈ کو چیک کیا اور دیکھا تو اس وقت 09:00 بجے تھے۔ مجھے امید تھی کہ میرا بھائی ترازان اب بھی زندہ ہو گا۔ میں اسے پکار رہی تھی اور مجھے امید تھی کہ مجھے وہ زندہ ملے گا۔‘

’میں اس خون کو سونگھ سکتی تھی جو مجھ پر ٹپک رہا تھا۔ میں مدد کے لیے چیخ رہی تھی کہ کوئی ہمیں بچائے۔ مجھے دوسروں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔‘

لیکن الما کو جب بچایا گیا تو اس کے بعد انھوں نے اپنے ننھے بھائی ترازن کی لاش دیکھیں۔

’اپنے بھائی کو اس طرح دیکھنے کے بعد میں اپنی موت کی تمنا کرتی ہوں، وہ صرف 18 ماہ کا تھا، اس جنگ میں اس کا کیا قصور ہے؟‘

یہ بھی پڑھیے

’جب ہمیں ڈر لگتا تھا تو ایک دوسرے کو گلے لگاتے تھے‘

الما اور ان کے کزنز
BBC
الما اپنے خاندان کو ہمیشہ کے لیے کھونے کے بعد اب اپنے چچا سمیع کے خاندان کے ساتھ رہتی ہیں

ترازان کی موت ہی الما کا واحد نقصان نہیں تھا بلکہ الما کا پورا خاندان ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔ ان کے والدین، چودہ سالہ بھائی غنیم، چھ سالہ کنان، اور گیارہ سالہ بہن ریحاب، بھی اس حملے میں مارے گئے۔

الما کے والدین نے اسرائیل کی بمباری سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ الما نے ہمیں اس بمباری کی پوری تفصیلات بتائیں۔

الما کے دیگر رشتہ داروں کے مطابق جس عمارت میں وہ سو رہے تھے اس بلڈنگ کو اسرائیلی فضائی حملے سے گرایا گیا۔

بی بی سی نے اسرائیلی فوج سے اس حوالے جاننا چاہا تو رابطے پر ہمیں بتایا گیا کہ وہ عمارت پر حملے کے اس دعوے کی تصدیق کے بغیر تبصرہ نہیں کر سکتے۔

الما کہتی ہیں، ’ہم ایک خاندان کے طور پر ایک ساتھ خوش تھے۔ جب ہمیں ڈر لگتا تھا تو ایک دوسرے کو گلے لگاتے تھے۔ کاش میں ان سب کو اپنے ساتھ تھام سکتی لیکن اس کے لیے اتنا وقت ہی نہیں تھا۔‘

جانتی ہوں کہ والدین ’جنت میں خوش‘ ہیں

الما ابھی تک اپنے پیاروں کو دفنانے کی منتظر ہیں۔ تاہم تاحال صرف ترازان کی لاش ملبے تلے سے برآمد ہو سکی ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’عمارت میں 140 جنگ سے بے گھر ہونے والے غزہ کے باشندے تھے تاہم ان میں سے صرف کچھ لاشیں ملی ہیں۔‘

’میرے خاندان کی لاشیں ملبے کے نیچے خراب ہو رہی ہیں۔ میں ان کو دیکھنا چاہتی ہوں اور ان کی مناسب تدفین کرنا چاہتی ہوں۔‘

الما کی زندگی اس ایک لمحے میں ہی بدل کر رہ گئی ہے۔

ہم سے بات کے دوران وہ خیمے کے ٹھنڈے فرش پر اپنے نوجوان کزنز کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ وہ سب مل کر پلاسٹک کے ٹکڑوں سے ایک خیالی پتنگ بنا رہے تھے۔

الما بھی ان کے ساتھ مسکراتے ہوئے شامل ہو جاتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اب وہ ہر وقت نہیں روتیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ان کے والدین ’جنت میں خوش‘ ہیں۔

انھیں اپنے چچا سمیع کے خاندان کے ساتھ سکون تو ملا ہے لیکن تحفظ نہیں۔

غزہ کے ہر بچے کی طرح انھیں بھی کسی بھی وقت مارا جا سکتا ہے۔

رفح میں خاص طور پر کمزور لوگ ہیں، جہاں اسرائیل مسلسل زمینی حملے کی دھمکیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ 14 لاکھ فلسطینیوں کا گھر ہے۔

یہ جنگ حماس کے اسرائیل پر سات اکتوبر کے حملوں کے بعد چھڑی۔ حماس کے حملوں میں تقریباً 1200 اسرائیلی مارے گئے تھے، جن میں زیادہ تعداد عام شہریوں کی تھی۔

اس کے بعد سے غزہ کے بچوں نے اس کی بہت بھاری قیمت چکائی ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز سے غزہ میں اسرائیلی فوج نے 13 ہزار بچوں کو ہلاک کیا۔

غزہ میں جنگ
Reuters
یونیسیف کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز سے غزہ میں اسرائیلی فوج نے 13 ہزار بچوں کو ہلاک کیا

حماس کی وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ میں مجموعی طور پر مرنے والوں کی تعداد 31923 بنتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت اس تعداد کو قابل بھروسہ تسلیم کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی درست تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ صرف اتنا کر سکتا ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کمی لائی جائے۔

فلسطینی اسرائیل کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے متعدد بم رہائشی عمارتوں پر گرائے ہیں، جہاں بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے تھے، جن میں سے ایک الما بھی ہیں۔

ان کے ایک رشتہ دار نے ہمارے ساتھ ایک تصویر بھی شیئر کی ہے۔ اس تصویر میں اپنی چھ نوجوان کزنز کے درمیان الما کھل کر مسکرا رہی ہیں۔

اس تصویر میں الما کے علاوہ موجود سب اس جنگ میں مر گئے ہیں۔ وہ ان کے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ دو دسمبر کو ہونے والے حملے میں مارے گئے تھے۔

نہ جانے کتنے ہی الما کی طرح کی بچے ہیں جن سے ان کے ماں اور باپ چھین لیے گئے ہیں۔

فلسطین کے انسانی حقوق پر کام کرنے والے ایک تحقیقاتی ادارے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق فروری کے اختتام تک اس جنگ میں 20 ہزار بچے یتیم ہو گئے ہیں۔

یہ غیر سرکاری ادارہ ہے جسے غزہ میں کام کرنے کے لیے یورپی یونین کی مدد حاصل ہے۔

اس ادارے کے مطابق مرنے والوں کی صحیح تعداد اس سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ مگر غزہ میں اس وقت تک خطرات اور مشکلات کی وجہ سے درست تعداد کا پتا چلانا خاصہ مشکل ہے۔

خیموں کی قطاروں کے درمیان گندگی کے ڈھیر پر الما اپنے چچا سمیع کے بچوں کے ساتھ ایک خانے سے دوسرے خانے میں کودتے ہوئے ’ہاپ سکاچ‘ کھیل رہی ہیں۔ وہ خوش اور پر سکون نظر آتی ہیں۔ یہ غم بھلانے کا ایک اور لمحہ ہے۔

اس جنگ سے پہلے جس نے ان سے سب کچھ چھین لیا، الما کو گنگنانا پسند تھا اور وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، ان کے والد کی بھی یہ خواہش تھی۔

الما کا کہنا ہے کہ ’میرے کچھ خواب تھے جنھیں میں پورا کرنا چاہتی تھی۔ لیکن اب میرے اور کوئی خواب نہیں ہیں۔ میرا دل دکھی ہے اور یہ صدمہ زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا کیونکہ وہ میرا پورا خاندان تھا جس میں میرے والدین، میرے بھائی اور میری بہن تھیں اور وہ ایک ہی رات میں سب مجھے چھوڑ کر اس دنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔‘

اب الما صرف غزہ سے کہیں دور اپنی دادی کے پاس جانا چاہتی ہیں جو کسی دوسرے ملک میں رہ رہی ہیں۔ الما کہتی ہیں کہ ’میں ان کے پاس جانا چاہتی ہوں، انھیں اپنے گلے لگانا چاہتی ہوں اور تحفظ کا احساس چاہتی ہوں۔‘

اس خبر کے لیے ویٹسکی بوریما، گوکتے کورالتن اور حنین عبدین نے اضافی رپورٹنگ کی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.