نوشکی بس حملے میں نو افراد ہلاک: ’سب اپنے شناختی کارڈ نکالو اور جو پنجابی ہے وہ باہر آ جائے‘

منڈی بہاؤالدین کے علاقے چک فتح شاہ کے سات لڑکے 27 رمضان کو اپنے گھروں سے ایران جانے کے لیے نکلے تھے اور اب ان میں سے صرف ایک ہی زندہ بچا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں بس میں سویا ہوا تھا کہ اچانک آواز آئی۔۔۔ سب اپنے شناختی کارڈ نکالو اور جو پنجابی ہیں وہ باہر آ جائیں۔‘
نوشکی، پنجاب، بلوچستان، منڈی بہاالدین
BBC

منڈی بہاؤالدین کے علاقے چک فتح شاہ کے سات لڑکے 27 رمضان کو اپنے گھروں سے ایران جانے کے لیے نکلے تھے اور اب ان میں سے صرف ایک ہی زندہ بچا ہے۔

بچ جانے والے زاہد عمران بلوچستان کے ضلع نوشکی میں مسافر بس پر ہونے والے حملے کے چشم دید گواہ ہیں اور اس وقت بس میں موجود تھے جب مسلح افراد نے مسافر بس سے اُتار کر نو افراد کو ہلاک کیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں بس میں سویا ہوا تھا کہ اچانک آواز آئی۔۔۔ سب اپنے شناختی کارڈ نکالو اور جو پنجابی ہیں وہ باہر آ جاؤ۔‘

گذشتہ روز نوشکی کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) نے بی بی سی کو فون پر بتایا تھا کہ اس مسافر بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو افراد کو اتارا گیا اور کچھ فاصلے پر لے جا کر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔

ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق پنجاب کے دو شہروں منڈی بہاؤالدین اور گوجرانوالہ سے تھا۔

ایس ایس پی نوشکی کے مطابق ان نامعلوم حملہ آوروں نے ایک اور گاڑی پر بھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں نوشکی سے تعلق رکھنے والے دو افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ یوں گذشتہ روز پیش آنے والے دو مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 11 ہو گئی۔

کوئٹہ کے سِول ہسپتال کی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ فیض کے مطابق پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی عمریں 25 برس کے لگ بھگ تھیں۔

naushki
BBC

واقعہ کیسے پیش آیا؟

اس حملے میں بچ جانے والے زاہد عمران نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ہم لوگ 27 رمضان کو منڈی بہاؤالدین سے نکلے تھے، مختلف مقامات پر رُکنے کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ اب ہمیں تفتان پہنچایا جائے گا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ منڈی بہاؤالدین سے بلوچستان تک کا سفر طویل تھا اور وہ مسافر بس میں تھکن کے باعث سو رہے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ بس میں چڑھنے والے مسلح افراد نے باآوازِ بلند کہا کہ ’جو پنجابی ہیں وہ باہر آئیں، ایک دو لڑکے تو اُٹھے مگر باقی وہیں بیٹھے رہے، جس پر مسلح افراد نے سب کے شناختی کارڈ دیکھنا شروع کر دیے۔‘

زاہد عمران کہتے ہیں کہ مسلح افراد نے انھیں بھی بس سے اُتارا لیکن وہ خوش قسمتی سے بچ گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ بس سے اُترنے کے بعد انھوں نے دیکھا کہ مسلح افراد کسی سے بات کر رہے تھے اور اسی دوران وہ موقع پا کر وہاں سے تیز تیز چلتے ہوئے دور نکل گئے۔

’پھر میں ایک جگہ چُھپ کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ آگے کہاں جاؤں اور کیا کروں، میں تھوڑی دیر وہیں بیٹھا رہا اور اچانک ہی فائرنگ کی آوازیں آئیں اور پھر اس کے بعد بس بھی وہاں سے چلی گئی۔‘

اس بس کے ایک اور مسافر نواز خان کا کہنا ہے کہ ان کے اردگرد صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزید افراد بھی موجود تھے لیکن مسلح افراد نے انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے مسافر مزید کہتے ہیں کہ ’شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے ساتھ خواتین اور بچے تھے۔ مگر جو لوگ تنہا تھے، جن کے ساتھ خواتین اور بچے نہیں تھے ان کو نہیں چھوڑا گیا۔‘

ان کے مطابق فائرنگ کی آوازیں آنے کے بعد ڈرائیور بس کو تیزی سے چلا کر ایک پولیس سٹیشن کی طرف لے گیا۔

چک فتح شاہ میں کہرام

واقعے میں ہلاک ہونے والے چھ افراد کا تعلق منڈی بہاؤالدین کے علاقے چک فتح شاہ سے ہے۔

مقامی سیاسی و سماجی کارکن نوید خان کا کہنا ہے کہ مارے جانے والے تمام لوگ غریب اور محنت کش نوجوان تھے، جن کی آخری مرتبہ اپنے گھر والوں سے جمعرات کی شام فون پر بات ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان لڑکوں نے اپنے گھر والوں کو بتایا تھا کہ یہ لوگ تھوڑی دیر بعد کسی بھی وقت ایران چلے جائیں گے اور پھر وہاں پہنچ کر رابطہ ہو گا۔

’جب یہ واقعہ ہوا تو ان لڑکوں کے گھر والے یقین ہی نہیں کر رہے تھے کہ ان کے بچے اب اس دنیا میں نہیں رہے، مگر اس واقعے میں زندہ بچ جانے والے زاہد عمران نے بتایا کہ سب لڑکے مارے گئے ہیں۔‘

نوید خان کا دعویٰ ہے کہ ہلاک ہونے والے سب لڑکے زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور ’وہ بہتر مستقبل اور اپنے گھر والوں کے لیے روزی روٹی کمانے کے لیے ایران جا رہے تھے۔‘

نوشکی کہاں واقع ہے؟

نوشکی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے مشرق میں تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس ضلع کی سرحد شمال میں افغانستان سے لگتی ہے۔

نوشکی کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے، تاہم اس کے مختلف علاقوں میں پشتونوں کے بڑیچ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آباد ہیں۔

بلوچستان میں حالات کی خرابی کے باعث نوشکی میں بھی بدامنی کے بڑے واقعات پیش آ رہے ہیں۔

نوشکی، پنجاب، بلوچستان، منڈی بہاؤالدین
Getty Images
(فائل فوٹو) بلوچستان میں حالات کی خرابی کے باعث نوشکی میں بھی بدامنی کے بڑے واقعات پیش آرہے ہیں

فروری 2022 میں نوشکی شہر میں فرنٹیئرکور (ایف سی) کے ہیڈکوارٹر پر ایک بڑا حملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی مجید بریگیڈ کی جانب سے قبول کی گئی تھی۔

نوشکی میں ماضی میں بھی اس نوعیت کے دیگر واقعات کی ذمہ داری کالعدم بی ایل اے کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔

بلوچستان میں ماضی میں بھی مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر ہلاک کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔

اس نوعیت کا سب سے پہلا واقعہ سنہ 2000 میں کوئٹہ اور سبی کے درمیانی علاقے میں پیش آیا تھا۔

ماضی میں بولان میں مسافر بسوں سے جن لوگوں کو اُتار کر گولیاں ماری جاتی رہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے تھا۔

بولان کے علاوہ اس نوعیت کے واقعات بلوچستان کے دیگر علاقوں مستونگ، کیچ اور گوادر میں بھی پیش آتے رہے ہیں۔

اپریل 2019 میں ضلع گوادر میں اورماڑہ کے قریب مسافر بسوں سے 14 افراد کو اتار نے کے بعد فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا تھا، جن میں سے 11 سیکورٹی اہلکار تھے۔

سنہ 2015میں پشین سے کراچی جانے والی مسافر بسوں سے ضلع مستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں کم از کم 19مسافروں کو بسوں سے اتار کر ہلاک کیا گیا تھا۔

ان مسافروں کا تعلق بلوچستان کے ضلع پشین سے تھا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.