چترال میں گاڑی چھین کر ڈرائیور کا قتل، ملزمان 22 برس بعد کیسے گرفتار ہوئے؟

image

خیبرپختونخوا کے ضلع چترال میں قتل کی واردات میں ملوث 2 ملزمان کو 22 سال بعد گلگت بلتستان سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔

چترال کے علاقے شندور میں 22 برس قبل 2002 میں گاڑی چھیننے کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں ملزمان نے ڈرائیور عظمت خدا اور کنڈکٹر کو قتل کر دیا تھا۔

پولیس نے تھانہ مستوج میں ایف آئی آر درج کرکے اس کیس میں پانچ ملزمان کو نامزد کیا تھا جن میں سے ایک کو گرفتار کیا گیا تھا تاہم چار ملزمان مفرور ہوگئے تھے۔ مفرور ملزمان  کا تعلق گلگت بلتستان سے تھا۔ 

قتل کے اس کیس میں مقامی عدالت کی جانب سے متعدد بار وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے مگر ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہ لائی جا سکی۔

مقتول ڈرائیور کی بیوہ  22 برس تک تھانے کچہری کے چکر کاٹتی رہیں اور شنوائی نہ ہونے پر انہوں نے انصاف کے لیے پشاور ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ 

خاتون کے وکیل ایڈوکیٹ شیر حیدر نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’مقتول ڈرائیور کی بیوہ نے سال 2022 میں پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس کا فیصلہ ایک سال کے اندر اندر ہوا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے تفتیشی اداروں کی غیر تسلی بخش کارروائی پر سرزنش کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا پولیس کو حکم جاری کیا کہ ملزمان کو ہر صورت گرفتار کرکے قانون کے کٹھرے میں لایا جائے۔

خاتون کے وکیل شیرحیدر کے مطابق عدالتی حکم پر عمل کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی پولیس اور کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ نے پُھرتی دکھائی اور کچھ ہی عرصے میں سرچ آپریشن کے دوران اشتہاری ملزمان کو گرفتار کر لیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سال 2002 میں وقوعے کے بعد ایک ملزم گرفتار ہوا تھا جس کو سیشن جج چترال کی عدالت نے 14 سال کی سزا سنائی تھی تاہم باقی چار ملزمان مفرور تھے جن میں سے 2 مرکزی ملزمان اب قانون کی گرفت میں آچکے ہیں۔

ایڈووکیٹ شیر حیدر نے مزید بتایا کہ دو ملزمان بیرونِ ملک مفرور ہیں جن کی گرفتاری کے لیے انٹرپول کو حکم دے دیا گیا ہے۔ 

ڈرائیور کا قتل کیسے ہوا؟

گلگت بلتستان پولیس حکام کے مطابق پانچ ملزمان مسافر بن کر  گاڑی بُک کرا کے گلگت بلتستان جا رہے تھے کہ راستے میں شندور پاس کے قریب انہوں نے گاڑی چھیننے کی کوشش کی۔

اس دوران ملزمان ڈرائیور اور کنڈکٹر کی جانب سے مزاحمت پر دونوں کو قتل کرکے گاڑی لے کر فرار ہو گئے۔

پولیس نے بتایا کہ ملزمان میں سے ایک سرکاری ملازم ہیں جن سے مزید تفتیش جاری ہے۔ ’اشتہاری ملزمان کئی برسوں تک روپوش تھے جنہیں پناہ دینے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے۔‘

دوسری جانب مقتول کی بیوہ نے 22 سال بعد شوہر کے قاتلوں کی گرفتاری پر سُکھ کا سانس لیا ہے۔

خاتون نے گلگت بلتستان پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گرفتار ملزمان کو فوری طور پر چترال پولیس کے حوالے کریں کیونکہ کیس کا مقدمہ تھانہ مستوج اپر چترال میں درج ہے۔

انہوں نے عدالت سے بھی مطالبہ کیا کہ ملزمان کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.