پاکپتن کی خاتون صحافی کی لاش سوہاوہ کے جنگل سے برآمد، قتل کیسے ہوا؟

image

11  مارچ 2024 کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع جہلم میں گرینڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) پر واقع ایک قصبے سوہاوہ کی پولیس معمول کے گشت پر تھی۔

پولیس ٹیم اپنے علاقے میں مختلف مقامات پر اردگرد کا جائزہ لے رہی تھی جب انہیں نواحی گاؤں لہڑی کے ایک جنگل میں ایک خاتون کی لاش کے بارے میں پتہ چلا۔

نیلے رنگ کے برقعے میں ملبوس خاتون کے جسم پر زخموں کے نشان تھے اور چہرہ تیزاب سے جلا کر مسخ کر دیا گیا تھا۔

مقتولہ کے بائیں طرف کے دانت ٹوٹے ہوئے تھے اور پیٹ اور پیٹھ میں زخم تھے۔ لاش کی بائیں جانب سے 30 بور پستول کی استعمال شدہ گولی کا خول بھی برآمد ہوا۔

پولیس نے لاش قبضے میں لی اور اس کی شناخت کے لیے چھان بین شروع کر دی، تاہم انہیں مقتولہ کے بارے میں کچھ علم نہ ہو سکا کیونکہ انہیں نہ تو کسی خاتون کی گمشدگی کی کوئی اطلاع موصول ہوئی تھی اور نہ ہی اس طرح کی کوئی رپورٹ درج کروائی گئی تھی۔

نعش کے قریب سے کوئی دستاویز بھی نہیں ملی۔ لہٰذا پولیس مخمصے کا شکار ہو گئی اور اس کے پاس پوسٹ مارٹم کے بعد شناخت کے لیے مقتولہ کے نمونے ڈی این اے ٹیسٹ اور فرانزک کے لیے بھجوانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچا۔

واقعے کی تفتیش کرنے والے سوہاوہ پولیس کے اہلکار عظمت کمال کے مطابق ان کے پاس اس وقت تک جو معلومات اور شواہد اکٹھے ہوئے تھے ان کے تحت انہیں کو اتنا ہی علم تھا کہ مقتولہ کو تیز دھار آلہ سے قتل کر کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا گیا تھا، تاکہ شناخت چھپائی جا سکے۔

ایک ماہ بعد فرانزک کی رپورٹ موصول ہوئی تو پولیس کو علم ہوا کہ لہڑی گاوں کے جنگل سے ملنے والی نعش پاکپتن کی خاتون صحافی نوشین رانا کی ہے اور ان کی شناخت انگلیوں کے نشانات (فنگر پرنٹس) کے ذریعے ہوئی ہے۔

پولیس شناخت کے باوجود معاملہ حل نہیں ہوا

پولیس نے نوشین رانا کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کیں تو انہیں علم ہوا کہ وہ مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ بطور صحافی منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ سماجی اداروں کے ساتھ بھی کام کرتی تھیں۔

سوہاوہ پولیس کے مطابق انہوں نے پاکپتن میں ان کے بھائی رانا نصیر سے رابطہ کر کے انہیں سوہاوہ بلایا تا کہ وہ شناخت کے بعد اپنی بہن کی نعش لے جائیں۔

پولیس نے مخلتف فرانزک ٹیسٹس سے تصدیق کی کہ مقتولہ نوشین رانا ہیں (فوٹو: اے ایف پی)لیکن رانا نصیر نے نعش وصول کرنے سے انکار کر دیا اور پولیس کو اس کو سوہاوہ میں ہی دفن کرنے کا کہہ دیا۔

رانا نصیر نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ انہیں 15 اپریل کو پولیس نے فون کال کر کے بتایا کہ اُن کی بہن نوشین رانا کا قتل ہو گیا ہے۔

وہ سوہاوہ میں مقتولہ کی نعش دیکھنے گئے تو شناخت نہ کر سکے کیونکہ مقتولہ کا چہرہ جلا ہوا تھا۔

پولیس نے مخلتف فرانزک ٹیسٹس سے تصدیق کی کہ مقتولہ نوشین رانا ہیں، لیکن وہ خود ان کو نہیں پہچان سکے اور اسی لیے لاش وصول نہیں کی۔

رانا نصیر کے مطابق ’نوشین رانا طویل عرصہ قبل اپنا گھر چھوڑ گئی تھیں۔ انہوں نے اپنی مرضی سے لاہور کے ایک شہری سے شادی کی تھی اور دونوں میاں بیوی کا ہمارے گھر آنا جانا بند تھا۔ فون پر بات بھی نہیں ہوتی تھی۔‘

پولیس مقتولہ کے شوہر کو ڈھونڈنے میں ناکام

رانا نصیر نے بتایا کہ مقتولہ کی ایک 15 سالہ بیٹی بھی ہے جو لاہور میں اپنے والد کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ اُن کا اپنی بھانجی اور بہنوئی سے بھی کوئی رابطہ نہیں ہے۔

سوہاوہ پولیس کے مطابق ان کا تاحال نہ تو نوشین رانا کے شوہر سے رابطہ ہو سکا ہے اور نہ ہی ان کی بیٹی سے۔

پولیس کے مطابق نوشین رانا کی دوسری شادی ڈیڑھ سال قبل لاہور میں ہوئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)نوشین کا اپنے خاندان سے جھگڑا

دوسری طرف پاکپتن کے مقامی صحافی وقار فرید جگنو ایک مختلف کہانی سناتے ہیں۔

انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ مقتولہ نوشین رانا کا تعلق پاکپتن کی یونین کونسل 33 ایس پی سے ہے۔

وہ مخلتف مقامی اخبارات او ٹی وی چینلز کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں اور مختلف فلاحی اداروں کے ساتھ کام کے لیے مختلف شہروں میں مقیم رہتی تھیں۔

وقار فرید جگنو کے مطابق مقتولہ نوشین رانا کا اپنے خاندان میں جھگڑا چل رہا تھا اور اسی وجہ سے وہ طویل عرصہ سے اپنے آبائی گھر نہیں آئی تھیں۔

وقار فرید جگنو نے بتایا کہ ’نوشین رانا کی اپنے خاوند اور فیملی کے ساتھ چپقلش کی وجہ سے ہی خاندان کا کوئی فرد بھی مقتولہ کی لاش لینے کے لیے سامنے نہیں آیا۔‘

پولیس کے مطابق نوشین رانا کی دوسری شادی ڈیڑھ سال قبل لاہور میں ہوئی تھی۔

 سوہاوہ پولیس سٹیشن کے تفتیشی افسر عظمت کمال نے اردو نیوز کو بتایا کہ نوشین رانا کی شناخت کے بعد ان کے قتل کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش جاری ہے۔

’سائنسی طریقہ کار اور ٹیکنالوجی کی مدد سے بہت جلد ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘ تاہم پولیس کو تاحال نوشین رانا کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.