فراڈ میں استعمال ہونے والی ’شیطان کی سانس‘ نامی دوا جس سے کسی بھی شخص کے ’دماغ کو قابو‘ کیا جا سکتا ہے

یہ دوا مائع اور پاؤڈر دونوں شکلوں میں دستیاب ہے۔ جرم کرنے کے لیے اس دوا کو کاغذ، کپڑوں، ہاتھ حتیٰ کہ موبائل فون کی سکرین پر بھی لگایا جا سکتا ہے تاکہ اس کی خوشبو سے کچھ وقت کے لیے کسی کا بھی دماغ قابو کیا جا سکے۔

ڈھاکہ کی تہمینہ بیگم (فرضی نام) کو چند روز قبل ایک ’عجیب‘ واقعے کا سامنا کرنا پڑا۔ بازار سے گھر لوٹتے ہوئے اچانک ایک عجیب سی عورت ان کے راستے میں آ کھڑی ہوئی اور ان سے ایک پتہ پوچھنے لگی۔

پھر ایک نوجوان سامنے آیا اور دو تین منٹ بات چیت کے بعد نجانے کیا ہوا کہ تہمینہ کو کچھ یاد نہیں آ رہا۔۔

تہمینہ بتاتی ہیں کہ یہ سب بہت عجیب اور خوفناک تھا۔ وہ آدمی جاننا چاہتا تھا کہ کیا اس علاقے میں کوئی غریب یا یتیم موجود ہے؟ وہ ان کی مدد کرنا چاہتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے گھر کے قریب ایک غریب گھرانہ رہائش پذیر تھا۔ اسی لیے میں تفصیلات جاننا چاہتی تھی اور ان چند منٹ بات کی لیکن ان چند منٹوں کے بعد نجانے کیا ہوا، میرا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔‘

تہمینہ نے اپنی بالیاں، گلے کی چین اور کئی ہزار نقدی نامعلوم خاتون اور نوجوان کے حوالے کر دی۔

انھوں نے کہا ’آنٹی آپ یہ زیورات اور پیسے تھیلے میں رکھیں۔ ورنہ گم ہو جائیں گے۔ میں نے بالکل ایسا ہی کیا۔ میرے ذہن میں یہ نہیں آیا کہ وہ کیوں گم ہو جائیں گے یا میں انھیں اپنے تھیلے میں کیوں رکھو؟‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’پھر لڑکے نے کہا میرے ساتھ چلیں۔ میں نے تھیلا لڑکی کو پکڑا دیا اور لڑکے کے پیچھے چلنے لگی۔‘

تھوڑی دیر چلنے کے بعد تہمینہ تنہا رہ گئیں۔۔ انھیں وہ لڑکا نظر نہیں آ رہا تھا اور جب وہ واپس آئیں تو انھیں لڑکی بھی نہ ملی۔

اس تلخ تجربے کے دوران تہمینہ نے اپنی سونے کی چین، بالیاں، نقدی اور موبائل فون کھو دیا۔

وہ کہتی ہیں ’مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ یہ سب کیسے ہوا۔ انھوں نے میرے ساتھ کچھ نہیں کیا۔ بس اتنا ہوا تھا کہ لڑکی نے میرے چہرے کے سامنے ہاتھ ہلا کر پتہ پوچھا تھا۔‘

تہمینہ بیگم کو جستلخ تجربے کا سامنا کرنا پڑا،حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش میں کئی افراد ایسے ہی واقعات کا شکار رہے ہیں اور اس کے پیچھے سکوپولامین نامی دوا کا نام سامنے آ رہا ہے۔

یہ دوا مائع اور پاؤڈر دونوں شکلوں میں دستیاب ہے۔ جرم کرنے کے لیے اس دوا کو کاغذ، کپڑوں، ہاتھ حتیٰ کہ موبائل فون کی سکرین پر بھی لگایا جا سکتا ہے تاکہ اس کی خوشبو سے کچھ وقت کے لیے کسی کا بھی دماغ قابو کیا جا سکے۔

لیکن کیا واقعی ایسی کوئی دوا موجود ہے؟

سکوپولامین ہمارے لیے بالکل نئی تھی، تحقیق سے معلوم ہوا لوگ اسے ’شیطان کی سانس‘ پکارتے ہیں

ستمبر 2023 میں بنگلہ دیش کے نارائن گنج میں ایک نجی یونیورسٹی کے استاد کو قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے قتل کی تحقیقات کے دوران ایک شخص کو گرفتار کرلیا۔ بعد ازاں ڈھاکہ سے ایک اور شخص کو گرفتار کیا گیا۔

پولیس کے مطابق ان میں سے ایک کے پاس سکوپولامین پائی گئی تھی۔

ایک بوتل کے اندر سے سفید پاؤڈر کی شکل میں چند گرام سکوپولامین اور کچھ دیگر منشیات ضبط کی گئیں۔

بعد میں عدالت کے حکم پر سی آئی ڈی لیب میں ٹیسٹ سے سکوپولامین کی موجودگی کا علم ہوا۔

نارائن گنج کے پولیس سپرنٹنڈنٹ غلام مصطفی رسل نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ پہلے انھیں سکوپولامین کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں جو کیمیائی ٹیسٹ رپورٹ ملی اس میں سکوپولامین، پوٹاشیم سائینائیڈ اور کلوروفارم کا پتہ چلا۔ ان میں سے سکوپولامین ہمارے لیے بالکل نئی تھی۔ ہمیں اس دوا کا نام، اس کا استعمال کب اور کن صورتوں میں کیا جا سکتا ہے، یہ سب نہیں معلوم تھا۔ اس پر تحقیق کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ دراصل بہت سے لوگ اسے ’ڈیولز بریتھ‘ یا ’شیطان کی سانس‘ پکارتے ہیں۔‘

مصطفیٰ بتاتے ہیں کہ اب تک کی تفتیش میں جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کے مطابق یہ منشیات سمگلرز، کوریئرز کے ذریعے اور کئی مختلف طریقوں سے ملک میں لا رہے ہیں۔

دھوترا کے پھولوں سے سکوپولامین کیسے بنتی ہے؟

سکوپولامین بنیادی طور پر ایک مصنوعی دوا ہے۔ یہ میڈیکل سائنس میں ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ متلی، گاڑی میں بیٹھ کر چکر آنے سے ہونے والی متلی اور بعض صورتوں میں آپریشن کے بعد مریض کو دی جانے والی دواؤں میں اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن یہ قدرتی دوا نہیں بلکہ سکوپولامین کو قدرتی اجزا میں شامل کرکے مصنوعی طور پر بنایا جاتا ہے۔ یہ مائع اور پاؤڈر دونوں شکلوں میں دستیاب ہے۔

لیکن اس کا اہم جزو دھوترا پھول سے آتا ہے۔

محکمہ نارکوٹکس کنٹرول کے چیف کیمیکل ایگزامینر دولال کرشنا کہتے ہیں کہ ’ایک زمانے میں بنگلہ دیش میں لوگوں کو دیوانہ بنانے کے لیے دھتر کو دودھ میں ڈال کر پلایا جاتا تھا۔ دھوترا کا پھول ایک زہر ہے۔ یہ ان دھتروں کے اجزا کے ساتھ مصنوعی طور پر بنایا جاتا ہے۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ ’میکسیکو کے منشیات کے کارٹلز، جو یہ منشیات بنا رہے ہیں وہی اسے پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔‘

سکوپولامین کب اور کیسے کام کرتی ہے: دوسری عالمی جنگ میں جاسوسی کے لیے ’ٹروتھ سیرم‘ کے طور پر استعمال

دوسری عالمی جنگ کے دوران خفیہ ایجنسیوں نے سکوپولامین کا استعمال کیا ہے۔ بعد میں اسے انجیکشن کے ذریعے مائع کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

بنگلہ دیش کی بنگلا بندھو شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی کے فارماکولوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر سید الرحمن کہتے ہیں کہ سکوپولامین کا بطور دوا استعمال اب بھی موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ حقیقت ہے کہ یہ اور اس جیسی کئی دوسری دوائیں میڈیکل سائنس میں استعمال ہوتی ہیں۔ سکوپولامائن کو پہلی بار دوسری عالمی جنگ کے دوران جاسوسی میں ’ٹروتھ سیرم‘ کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ یعنی جسے ٹیکہ لگ جائے تو وہ سچ کہنے لگتا ہے کیونکہ اس سے انسان کے دماغ پر اس کا اپنا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دوسروں کے کنٹرول میں آ جاتا ہے، دوسروں کی بات سنتا ہے اور وہی کرتا ہے جو اسے کہا جائے۔‘

رحمان کہتے ہیں کہ ’جب آپ اسے بات کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ سچائی والے سیرم کے طور پر کام کرتا ہے اور جب آپ اسے پاؤڈر کی شکل میں سانس میں لے رہے ہوتے ہیں تو یہ ’شیطان کی سانس‘ ہے مگر جب آپ اسے الٹی یا کسی بیماری کے لیے لے رہے ہیں تو یہ دراصل دوا کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔‘

سکوپولامائن بنیادی طور پر دھوکہ دہی کے لئے ایک پاؤڈر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے. اسے وزیٹنگ کارڈ، کاغذ، کپڑے یا موبائل فون کی سکرین پر لگا کر شکار بنائے جانے والے لوگوں کی سانسوں کے قریب لایا جاتا ہے۔

محکمہ نارکوٹکس کنٹرول کے چیف کیمیکل ایگزامینر ڈاکٹر دولال کرشنا ساہا کے مطابق، سکوپولامین دراصل انسانی ناک کے چار سے چھ انچ کے فاصلہ سے اندر داخل ہو جاتا ہے۔

’اس کا اثر سانس لینے کے صرف 10 منٹ کے بعد شروع ہو جاتا ہے۔ پھر یاداشت اور دماغ شعوری طور پر کام نہیں کر سکتے۔ کچھ لوگوں کو معمول پر آنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ اور کچھ افراد تین چار گھنٹے میں بھی نارمل نہیں ہو سکتے۔‘

کیا سکوپولامین کو دوائی کے خام مال کے طور پر ملک میں لایا جا رہا ہے؟

بنگلہ دیش میں اس کا استعمال ابتدائی طور پر ڈھاکہ میں پایا گیا تھا لیکن بعد میں ڈھاکہ سے باہر کے اضلاع میں بھی سکوپولامین کے استعمال سے دھوکہ دہی کی اطلاعات ہیں۔

تاہم پولیس کے پاس ایسے واقعات کے کوئی خاص اعدادوشمار نہیں ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی کے اوجود منشیات فروش باہر سے سکوپولامین ملک میں کیسے لا رہے ہیں، یہ بھی ایک بڑا سوال ہے۔

نارائن گنج واقعے کے بعد جاسوسوں کو سکوپولامین آن لائن فروخت ہونے کی اطلاع ملی۔ پولیس کے مطابق گرفتار کیے گئے دونوں افراد آن لائن فروخت میں ملوث ہیں۔ اور یہ بنیادی طور پر ملک کے باہر سے سکوپولامین لا رہے ہیں۔

اس معاملے میں کورئیر سروس سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ تاہم، پولیس اس بات کی بھی تفتیش کر رہی ہے کہ آیا کوئی سکوپولامین کو دوائی کے خام مال کے طور پر لا رہا ہے یا نہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ایسے جرائم میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے کام کیا جا رہا ہے ’ہم پہلے ہی کچھ لوگوں کو گرفتار کر چکے ہیں۔ اس سے قبل نارائن گنج میں بھی گرفتاریاں ہو چکی ہیں۔ ہم ان سے موصول ہونے والی معلومات کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ اس میں اور کون ملوث ہے اس کا پتہ لگانے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔‘

لیکن آئے روز سکوپولامین کے استعمال سے دھوکہ دہی کی خبریں آ رہی ہیں اور لوگوں میں خوف بڑھ رہا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.