پی کے 8303 کی تباہی: ’کپتان چیخا مے ڈے، مے ڈے، طیارہ مڑا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ رن وے تک پہنچنا ممکن نہیں‘

پی کے 8303 نے چار برس قبل آج ہی کے دن لاہور سے کراچی کے لیے اڑان تو بھری لیکن منزل سے چند قدم دور اس کا سفر ایسے تمام ہوا کہ 99 میں سے صرف دو افراد ہی زندہ بچ سکے اور تحقیقات میں حادثے کی وجہ کوئی مشینی یا تکنیکی خرابی نہیں بلکہ انسانی غلطیوں کو قرار دیا گیا۔

یہ 2020 تھا اور مئی کے مہینے کی 22 تاریخ۔ دنیا کے متعدد ممالک کی طرح پاکستان کووڈ کی وبا کے شکنجے میں تھا اور اس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن نافذ تھا۔

عید کا تہوار بھی سر پر تھا اور اسی وجہ سے لاک ڈاؤن کی سختیوں کے باوجود لاہور سے کراچی کے لیے جانے والی پی آئی اے کی پرواز 8303 میں کوئی نشست خالی نہ تھی۔

اس دن اس طیارے پر لاہور سے پرواز کرنے والے 99 افراد میں سے کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کا آخری سفر ثابت ہو سکتا ہے۔

پی کے 8303 نے لاہور سے اڑان تو بھری لیکن منزل سے چند قدم دور اس کا سفر ایسے تمام ہوا کہ 99 میں سے صرف دو افراد ہی زندہ بچ سکے۔

ظفر مسعود اس حادثے میں معجزاتی طور پر زندہ بچنے والے دو مسافروں میں سے ایک ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے یہ بینکار لاہور میں چھ ہفتے کے قیام کے بعد عید منانے واپس اپنے گھر جا رہے تھے۔

ظفر کے لیے بھی وہ دن کسی بھی عام دن کی طرح تھا، مگر اِس دن کا اختتام کس نہج پر ہو گا اور یہ ان کی زندگی کیسے بدل کر رکھ دے گا، یہ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

چار برس قبل پیش آنے والے اس حادثے سے چند منٹ پہلے اس طیارے کیا ہو رہا تھا، اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ظفر مسعود نے کہا 'میں چھ ہفتوں کے بعد لاہور سے اپنے گھرکراچی واپس جا رہا تھا۔ لاہور میں اپنے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے باعث میں تھکا ہوا تھا مگر یہ سوچ کر خوش تھا کہ عید اپنے اہلخانہ کے ساتھ مناؤں گا۔

’اسی سوچ کے ساتھ میں طیارے پر سوار ہوا جہاں سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ لاہور سے ٹیک آف کے بعد کراچی ایئرپورٹ پہنچنے تک پرواز پُرسکون تھی۔ مسائل کا آغاز کراچی ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے موقع پر ہوا۔ مجھے آج بھی وہ وقت یاد ہے جب کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر طیارہ لینڈنگ کی پوزیشن میں آیا۔ جہاز نے رن وے پر اُترنے کی کوشش کی مگر اِس دوران وہ سلائیڈ ہوا اور پھسل گیا۔ ایسا ایک سے زائد مرتبہ ہوا، جس کے بعد طیارہ رن وے سے دوبارہ فضا میں بلند ہو گیا۔'

ظفر بتاتے ہیں کہ لینڈنگ کی پہلی کوشش کے دوران پیش آنے والے واقعے نے طیارے میں موجود افراد کو پریشان کر دیا تھا۔ 'میں جہاز کی پہلی قطار میں تھا۔ میرے سامنے دو ایئر ہوسٹسز تھیں جبکہ ایک جانب جہاز کے عملے کا ایک اور رکن تھا اور سب پریشان تھے۔'

پی آئی اے
Getty Images

'کاک پٹ کے دروازے کُھلے ہوئے تھے۔ لینڈنگ کی ناکام کوشش کے چند سیکنڈز بعد طیارہ دوبارہ فضا میں تھا۔ ہر کوئی ڈرا ہوا تھا اور کچھ وقت کے لیے طیارے میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ سب لوگ زیرِ لب کچھ نہ کچھ پڑھ رہے تھے۔ جب طیارے نے دوبارہ لینڈنگ کی پوزیشن اختیار کی تو نہ جانے کیوں مگر میں سمجھ چکا تھا کہ طیارے کو حادثہ پیش آئے گا۔'

اپنی اُس وقت کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے ظفر نے کہا 'طیارہ زمین پر گِرنے سے چند لمحوں قبل میں اپنے آپ سے اور اپنے اندر موجود خدا سے باتیں کر رہا تھا۔ مجھے اپنے اندر سے آواز آ رہی تھی کہ میں بچ جاؤں گا۔ نہ جانے کیوں مگر مجھے ایسے لگ رہا تھا۔‘

ظفر بتاتے ہیں کہ 'جب طیارہ زمین سے ٹکرایا تو میں ایک رہائشی عمارت کی تیسری منزل پر آن گِرا اور اس کے بعد سڑک پر موجود ایک کار کے اوپر۔'

اس کے بعد وہ بےہوش تو ہو چکے تھے مگر ساتھ ساتھ ایک 'معجزہ' بھی رونما ہو چکا تھا یعنی وہ اس حادثے میں زخمی ہونے کے باوجود زندہ تھے۔

ظفر مسعود نے بی بی سی کو جو کچھ بتایا وہ اُن کا آنکھوں دیکھا حال تھا تاہم اِس دوران اس بدقسمت طیارے کے کاک پٹ میں جو کشمکش جاری تھی اس کی ابتدا طیارے کے تباہی سے کافی دیر پہلے ہو چکی تھی۔

پی کے 8303
BBC

فلائٹ 8303کے کاک پٹ میں کیا ہو رہا تھا ؟

پی آئی اے کے طیارے ایئربس اے 320 اور پرواز پی کے 8303 کے حوالے سے پاکستان کے ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ انویسٹی گیشن بورڈ کی حتمی تحقیقاتی رپورٹ 20 اپریل 2023 کو جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ یہ حادثہ کسی مشینی یا تکنیکی خرابی کی وجہ سے پیش نہیں آیا بلکہ یہ انسانی غلطی کا نتیجہ تھا۔

رپورٹ کے مطابق دوپہر ایک بجے کے قریب پی کے 8303 نے معمول کے مطابق اڑان بھری۔ جب کیبن کریو نے پائلٹس سے پوچھا کہ آیا وہ کچھ کھائیں گے تو دونوں نے منع کر دیا کیونکہ وہ روزے کی حالت میں تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دوران پرواز 34 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ چکی تھی جہاں اسے 45 منٹ تک رہنا تھا۔ قریباً ڈیڑھ بجے کراچی ایریا کنٹرولر نے پائلٹس کو بتایا کہ 'نواب شاہ ٹو اے' کا راستہ صاف ہے لیکن تحقیقات کرنے والے حکام کے مطابق جب پرواز کے بلندی کم کرنے کا وقت قریب آیا تو ایسے کوئی اشارے نہیں ملے کہ پائلٹس اس کی تیاری کر رہے تھے یعنی دونوں پائلٹس نے وہ 'اپروچ بریفنگ' نہیں کی جس میں طیارے کی رفتار، بلندی اور رن وے سے فاصلے سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔

مکلی کے مقام سے فلائٹ 8303 کو 10 ہزار فٹ (فلائٹ لیول 100) کی بلندی سے نیچے اترنا تھا۔ طیارہ اڑانے والے پائلٹ کو فلائٹ کنٹرول یونٹ (ایف سی یو) میں اسے درج کرنا تھا اور معاون پائلٹ کو اس کی تصدیق کرنی تھی۔ ایف سی یو کو فلائٹ لیول 100 پر سیٹ تو کیا گیا مگر آپس میں پائلٹس نے اس پر بات نہیں کی۔

جہاز کو مکلی کے مقام سے سیدھا آتے ہوئے رن وے پر اترنا تھا۔ یہ ایک شارٹ کٹ بنتا تھا اور اس راستے سے رن وے تک پہنچتے ہوئے طیارے کی اونچائی پر نظر رکھنا ضروری تھا۔ طیارے کے کپتان نے اس کا ڈسینٹ موڈ (اترنے کا خودکار نظام) فعال کیا اور طیارہ اب ہر منٹ قریب ایک ہزار فٹ نیچے آ رہا تھا۔

تاہم اپروچ بریفنگ نہ ہونے کی وجہ سے پائلٹس کو احساس نہیں ہوا کہ طیارہ کتنی بلندی پر ہے، کتنا سفر باقی ہے اور وہ لینڈنگ رن وے سے کتنے فاصلے پر ہیں۔ وہ فلائٹ مینیجمنٹ کمپیوٹر (ایف ایم یو) کے اس سسٹم پر انحصار کر رہے تھے جو پہلے سے پروگرامڈ تھا اور جسے راستے میں تبدیلی کا علم نہیں تھا۔

پی کے 8303، حادثہ
BBC

رپورٹ کے مطابق دو بج کر 18 منٹ پر طیارے کی اترنے کی رفتار 2400 فٹ فی منٹ ہو گئی تھی۔ ایئر ٹریفک کنٹرول نے انھیں پانچ ہزار فٹ کی بلندی تک نیچے آنے کا کہا مگر پائلٹس نے قواعد و ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے ایف سی یو کو اپ ڈیٹ نہیں کیا۔

ایک موقع پر ایئر ٹریفک کنٹرولر نے ان سے سات مرتبہ بات کرنے کی کوشش کی مگر کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ پھر دو مرتبہ ایمرجنسی ریڈیو فریکوئنسی پر کال کی گئی تب جا کر جواب آیا۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت پائلٹس 'گفتگو میں مصروف تھے جو پرواز کے اس مرحلے سے متعلق نہیں تھی۔' اترائی کے وقت طیارے کا کمپیوٹر یعنی ایف ایم یو رن وے سے فاصلہ 90 ناٹیکل میل ظاہر کر رہا تھا، جو کہ درحقیقت 67 ناٹیکل میل تھا۔ پائلٹس نے سسٹم میں نئی معلومات کو درج نہیں کیا تھا مگر وہ اس بےضابطگی کو کمپیوٹر اور سکرین کے نقشے پر دیکھ سکتے تھے۔

'سر ہم پہنچ جائیں گے، انشا اللہ'

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو بج کر 25 منٹ پر نئے ایئر ٹریفک کنٹرولر نے پرواز کو مزید تین ہزار فٹ نیچے آنے کو کہا۔

مکلی اور پھر سابن کے مقام پر طیارے کو پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر ہونا چاہیے تھا مگر یہ کہیں زیادہ بلندی پر تھا مگر یہ اب بھی کوئی خطرناک صورتحال نہیں تھی اور پائلٹس اپنی غلطی کا اندازہ لگاتے ہوئے اس کی تصحیح کر سکتے تھے۔

مکلی سے گزرتے ہوئے طیارہ 9363 فٹ بلندی پر موجود تھا۔ اپروچ کنٹرولر ریڈار کی سکرین پر یہ دیکھ کر الرٹ ہوئے اور انھیں اندازہ ہوا کہ طیارہ طے شدہ بلندی سے دوگنا اونچائی پر ہے۔

انھوں نے پائلٹس سے رابطہ کیا اور پوچھا 'پاکستان 8303، کیا آپ اترائی کے لیے تیار ہیں؟' کپتان نے جواب دیا 'جی۔' مگر اس موقع پر کپتان کو اپنی غلطی کا اندازہ ہوا اور انھوں نے کہا 'یہ کیا ہوا ہے؟ رُکیں، رُکیں۔ اوہ نہیں۔ ہولڈ ختم کریں!'

فرسٹ آفیسر نے کہا 'ہولڈ ختم کر دیا گیا۔ کیا ہمیں اس مسئلے کی اطلاع دینی چاہیے؟'

رپورٹ کے مطابق صورتحال کی سنگینی کو نہ سمجھ پانا وہ پہلی بڑی غلطی تھی جس نے اس فضائی حادثے کو جنم دیا۔

سپیڈ بریک لگانے اور اوپن ڈسینٹ موڈ پر جانے سے اب طیارہ زیادہ رفتار سے نیچے آ رہا تھا۔ اس دوران کراچی ٹاور کنٹرولر کو بھی یہ معلوم ہو گیا کہ طیارے زیادہ اونچائی پر ہے۔ انھوں نے اپروچ کنٹرولر کو اس حوالے سے بتایا مگر انھیں اس کا پہلے سے ہی علم تھا۔

کراچی اپروچ کنٹرولر نے پائلٹس سے دوبارہ پوچھا مگر وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔

اپروچ کنٹرولر کے سوال پر کپتان نے فلائنگ پائلٹ سے کہا 'کہوں سب ٹھیک ہے۔' فلائنگ کپتان نے کہا 'سر ہم بالکل ٹھیک ہیں، ہم پہنچ جائیں گے، انشا اللہ۔'

حتمی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کپتان پہلے بھی تیز رفتار، زیادہ بلندی، برق رفتار اترائی سمیت دیگر بے ضابگطیوں میں ملوث رہے تھے۔

کاک پٹ میں کشمکش، ہر وارننگ بند کر دی گئی

دو بج کر 32 منٹ پر کپتان کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ 'وہ (ایئر ٹریفک کنٹرول) یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ ہم نے ایسا کیا ہے۔' رپورٹ کے مطابق اس سے کپتان کا 'اوور کانفیڈنس' ظاہر ہوتا ہے۔

اپروچ کنٹرولر نے یہ سن لیا تھا۔ انھوں نے ہدایت دی کہ پرواز اتارنے کی اس حکمت عملی کو تبدیل کیا جائے مگر کپتان نے یہ بات نہ مانی۔ آٹھ سیکنڈ بعد جواب دیا گیا کہ 'ہم ٹھیک ہیں۔'

کراچی اپروچ کنٹرولر نے دوبارہ انھیں مڑنے کا کہا اور پھر وہی جواب ملا۔ نوز ڈائیو کرتا ہوا یہ طیارہ زیادہ رفتار سے اُڑ رہا تھا۔ اس دوران طیارے کے کمپیوٹر نے وارننگ دی کہ جہاز کو اوپر اٹھانا ہوگا جس پر فوراً عمل کیا جانا چاہیے تھا مگر پائلٹس نے ان وارننگز کو بھی نظر انداز کیا۔

فرسٹ آفیسر نے کپتان سے پوچھا کہ آیا انھیں طیارے کو موڑ لینا چاہیے؟ یعنی ایک چکر لگا کر اس کی رفتار اور بلندی پر قابو پایا جا سکتا تھا مگر کپتان نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پھر انھوں نے اعلان کیے بغیر طیارے کا کنٹرول سنبھال لیا اور لینڈنگ کے لیے اپنی حکمت عملی پر عمل کرنے لگے۔

متعدد وارننگز کو نظر انداز کرنے کے بعد بھی ایک آخری چیز تھی جو پائلٹس کو الرٹ کر سکتی تھی جو زمین سے فاصلے کی تنبیہ یعنی 'گراؤنڈ پراگزیمیٹی وارننگ سسٹم۔' تھی

طیارے کے کمپیوٹر نے پائلٹس سے مخاطب ہو کر انھیں 'ٹُو لو، گیئر' اور 'پُل اپ' کی وارننگز دیں۔ انھیں صاف، صاف یہ انتباہ مل چکا تھا کہ لینڈنگ گیئر فوری طور پر کھولا نکالا جائے۔

اب طیارہ رن وے سے سات فٹ اوپر 200 ناٹس کی رفتار سے اڑ رہا تھا مگر اس کے پہیے اب بھی نہیں کھولے گئے تھے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کپتان نے ٹچ ڈاؤن یعنی زمین سے اتصال سے قبل ہی دونوں انجنز پر فل ریورس لگایا جس سے دوبارہ یہ ظاہر ہوا کہ انھوں نے قواعد و ضوابط کی پیروی نہیں کی کیونکہ ایسا ٹچ ڈاؤن کے بعد کیا جاتا ہے۔

لینڈنگ کی ناکام کوشش اور دوبارہ اڑان

حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دو بج کر 34 منٹ پر طیارے کے دونوں انجن رن وے سے ٹکرائے اور چنگاریاں نکلیں۔ کیبن میں شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ 16 سیکنڈز کے دوران چار مرتبہ ایسا ہوا مگر طیارے کی رفتار کم نہ ہوئی۔ اس دوران دوسری طرف فرسٹ آفیسر طیارے کو اوپر اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔

معجزاتی طور پر اس فضائی حادثے میں بچنے والے مسافر ظفر مسعود کہتے ہیں کہ ایسا لگا کہ طیارہ لینڈنگ کے دوران پھسل گیا ہو اور اس واقعے نے طیارے میں موجود تمام افراد کو اچانک بہت پریشان کر دیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ 'کاک پٹ کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ لینڈنگ کی ناکام کوشش کے چند سیکنڈز بعد طیارہ دوبارہ فضا میں تھا۔ ہر کوئی ڈرا ہوا تھا اور کچھ وقت کے لیے طیارے میں مکمل خاموشی چھا گئی۔'

رپورٹ کے مطابق کاک پٹ میں دوبارہ اڑان سے قبل دوسرے انجن نے فائر وارننگ دی، اس کا جنریٹر فیل ہوگیا تھا۔ اگر وہ رن وے پر رہتے تو ان کے بچنے کے امکان زیادہ تھے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔

رن وے پر رگڑ لگنے سے دونوں انجنز میں سے تیل بہہ چکا تھا مگر اضطراب میں مبتلا پائلٹس اس سے آگاہ نہیں تھے۔

فرسٹ آفیسر چِلائے کہ 'ٹیک آف سر، ٹیک آف!' اضطراب میں مبتلا کپتان نے یہ تجویز مان لی اور دوبارہ اڑان بھر لی۔

کچھ اونچائی پر لینڈنگ گیئر کو نیچے کر کے دوبارہ اوپر کر دیا گیا۔ ایئر پورٹ کا عملہ بغیر لینڈنگ گیئر جہاز کی اترائی اور چنگاریاں دیکھ کر چونک گیا تھا۔

ایئر ٹریفک کنٹرولر نے انھیں چکر لگا کر واپس آنے کو کہا۔ ان کے مشاہدے میں ’بیلی لینڈنگ‘ آ چکی تھی مگر اس حوالے سے پائلٹس کو یاد نہیں کروایا گیا۔

'سر، ہمارے انجن فیل ہوچکے ہیں!'

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب طیارے کو موڑا گیا تو پہلا انجن فیل ہونے لگا جبکہ دوسرے انجن کو پہلے ہی نقصان پہنچ چکا تھا۔ پائلٹس کو لگا کہ صرف پہلا انجن کام کر رہا ہے تو انھوں نے دوسرے انجن کو بند کر دیا۔

10 سیکنڈ بعد فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈر نے کام کرنا بند کر دیا۔ اب طیارے کے دونوں جنریٹر فیل ہوچکے تھے۔

انجن سے آوازیں آنے لگیں تو کپتان نے فرسٹ آفیسر سے پوچھا 'یہ آواز کس چیز کی ہے؟' فرسٹ آفیسر نے جواب دیا کہ 'رفتار میں کمی کی۔'

دو بج کر 38 منٹ سے طیارہ بغیر کسی انجن کی مدد کے ہوا میں تیر رہا تھا۔ فرسٹ آفیسر نے رفتار میں اضافے کا کہا جس پر کپتان نے پوچھا 'میں کیسے رفتار بڑھا سکتا ہوں؟'

فرسٹ آفیسر نے کراچی اپروچ کنٹرولر کو بتایا کہ 'ہم براہ راست اتریں گے۔ سر، ہمارے انجن فیل ہوچکے ہیں۔'

کراچی اپروچ کنٹرولر کے سوال پر کپتان نے طیارے کی رفتار کم ہونے کے باوجود لینڈنگ گیئر نیچے کر دیا جس نے طیارے کی رفتار کو اور بھی کم کر دیا۔

کپتان نے کیبن کریو کو بیٹھنے کا کہا اور اس کے بعد وہ چیخے 'مے ڈے، مے ڈے، مے ڈے!'

اگرچہ طیارہ رن وے کی طرف مڑ رہا تھا مگر پائلٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ وہاں پہنچ نہیں سکیں گے۔

پھر دو بج کر 40 منٹ پر طیارے رن وے اور ایئر پورٹ کے قریب واقع ایک گنجان آباد رہائشی علاقے میں جا گرا اور اس وقت وہ رن وے سے قریب 1300 میٹر دور تھا۔

قواعد و ضوابط کی عدم پیروی اور ایئر ٹریفک کنٹرول سے رابطے کا فقدان

اس حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ میں حادثے کی وجہ 'قواعد و ضوابط کی عدم پیروی اور ایئر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات کو نظر انداز کرنا' تھی۔ اس رپورٹ میں لینڈنگ کے حوالے سے ایئر ٹریفک کنٹرولر اور پائلٹس کے درمیان رابطے کے فقدان کو بھی حادثے کی وجوہات میں شمار کیا گیا۔

پائلٹس نے 'ایس او پیز کی متعدد خلاف ورزیاں کیں، ضروری بریفننگ نہیں کی گئیں، کئی الرٹ اور وارننگز نظر انداز کر دی گئی، ان پر بات چیت نہیں ہوئی یا انھیں بند کر دیا گیا۔'

رپورٹ کے مطابق فلائٹ کریو کے درمیان فلائٹ کنٹرول اور طیارہ اتارنے کو لے کر بروقت کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

ترجمان پی آئی اے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس رپورٹ کا بغور جائزہ لیا گیا ہے اور اب پی آئی اے نے رپورٹ میں دی گئی تجاویز اور اپنے ماہرین کی مدد سے اپنی پروازوں کو محفوظ بنانے کے لیے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی روشنی میں قواعد و ضوابط مرتب کیے ہیں جن پر سختی سے عملدر آمد ہوتا ہے۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں عملے کے مکمل طبی معائنے کے علاوہ نفسیاتی تجریہ اور جہازوں کی دیکھ بھال بھی شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس حادثے کے وقت طیارے کے دونوں پائلٹ روزے کی حالت میں تھے اور خیال رہے کہ اس حادثے کے بعد پی آئی اے نے روزے کی حالت میں طیارہ اڑانے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔

طیارے کے 58 سالہ کپتان گذشتہ 24 برسوں سے پی آئی اے میں کام کر رہے تھے جبکہ 33 سالہ فرسٹ آفیسر ایک قدرے جونیئر پائلٹ تھے جن کا تجربہ قریب 10 سال کا تھا مگر وہ اس پرواز کے فلائنگ پائلٹ تھے جبکہ کپتان مانیٹرگ پائلٹ تھے۔

حتمی تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق کپتان کسی سوشل یا نفسیاتی مسئلے کا شکار نہیں تھے مگر 1996 کے دوران اپنی بھرتی کے وقت وہ نفسیاتی ٹیسٹ میں فیل ہوئے تھے۔

پی آئی اے کے ماہرینِ نفسیات نے کہا تھا کہ ان کی فطرت اپنی بات منوانے والی ہے یعنی وہ دوسروں پر 'حاوی ہو جاتے ہیں‘ تاہم پانچ دیگر ماہرین نفسیات (جن میں سے تین کا تعلق برطانیہ سے تھا) کی بھی رائے حاصل کی گئی، جنھوں نے انھیں کیڈٹ پائلٹ بننے کا اہل قرار دیا۔

پی آئی اے اپنی منظور شدہ فہرست کے سوا کسی دوسرے ماہرِ نفسیات کی رائے تسلیم نہیں کرتا تھا لہٰذا کپتان نے وفاقی محتسب سے پالیسی میں تبدیلی کی درخواست کی تھی جس پر ان کے حق میں فیصلہ آیا۔

خیال رہے کہ پی آئی اے میں سروس کے دوران ان میں ذہنی صحت کے حوالے سے کسی مرض کی تشخیص نہیں ہوئی تھی۔

پی کے 8303
AFP

’زندہ بچ جانے کے بعد زندگی گزارنے کے لیے حوصلے کی ضرورت تھی‘

اس حادثے کے چار سال بعد آج ظفر مسعود مسافروں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ 'مجھے بازو، ٹانگ اور جسم پر مختلف چوٹیں لگی تھیں۔ میں کئی دن تک ہسپتال میں رہا اور اس دوران میری کئی سرجریز ہوئیں۔'

ان کا کہنا ہے کہ 'زندہ بچ جانے کے بعد زندگی گزارنے کے لیے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حادثے نے مجھے بڑے صدمے میں مبتلا کیا، جس سے نکلنے کے لیے قوت ارادی کے ساتھ ساتھ کونسلنگ کی ضرورت تھی۔'

'میں نے اس حقیقت کو قبول کرتے ہوئے ماہر نفسیات سے کونسلنگ لی جس نے مجھے اس صدمے سے نکلنے میں مدد کی۔'

'اس حادثے کے کچھ عرصے بعد میں دوبارہ پیشہ ورانہ زندگی کی طرف لوٹ گیا۔ مجھے واپس لوٹنا ہی تھا۔ اور اب میری توجہ مسافروں کی زندگیوں کے تحفظ، چاہے وہ فضائی سفر ہو یا زمینی، پر مرکوز ہے۔ چاہے وہ اس ضمن میں قانون سازی ہو یا پہلے سے موجود قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کو یقینی بنوانا ہو۔'

'میری زندگی اس طرح نہیں ہے جس طرح اس حادثے سے پہلے تھی۔ مگر یہ معجزہ تو ضروری تھا۔ میں حادثے میں محفوظ رہا اور اکثر سوچتا ہوں کہ اس حادثے میں جو لوگ نہیں بچ پائے ان میں کئی مجھ سے بہتر ہوں گے۔'

انھوں نے کہا کہ وہ حکام کو گاہے بگاہے ایسی تجاویز پیش کرتے رہتے ہیں جن کی مدد سے پاکستان میں سفر کو محفوظ بنایا جا سکے۔

20 مئی 2020 کے حادثے کو جدید دور کے بڑے حادثات میں شمار کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں مسافر طیاروں کو پیش آنے والے فضائی حادثات کی فہرست کافی طویل ہے

اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 1965 سے لے کر مئی 2020 تک 18 حادثات میں مجموعی طور پر 1088 لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس میں 1989 میں گلگت سے اسلام آباد کے لیے اڑان بھرنے والی پرواز کے وہ 54 مسافر بھی شامل ہیں جو کہ آج تک لاپتہ ہیں اور انھیں مردہ تصور کیا جا چکا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.