عمران خان کی جانب سے احتجاج کی فائنل کال 24 نومبر کے لیے دی گئی ہے۔ یہ کال کئی لحاظ سے مختلف ہے بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا آغاز بھی بالکل ہی منفرد تھا۔
نہ تو تحریک انصاف کی قیادت، خصوصی طور پر پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی نے یہ کال عمران خان سے ملاقات کے بعد باہر جا کر دی اور نہ ہی پارٹی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرام راجہ نے۔
یہ کال عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے ان سے ملاقات کے بعد 13 نومبر کو اڈیالہ جیل کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دی۔
اس سے پہلے کبھی بھی ایسی صورت حال دیکھنے میں نہیں آئی۔ لیکن یہ ضرور ہوا کہ گذشتہ جتنے بھی احتجاج ہوئے ان میں سوشل میڈیا پر پارٹی لیڈرشپ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ مبصرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے براہ راست اپنے کارکنوں کو کال دی۔
14 نومبر کو چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان سے جب صحافیوں نے پوچھا کہ اس احتجاج کی کال پر ان کی کیا رائے ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بانی پی ٹی آئی کا حکم ہے تو ہم اس کو حکم کے طور پر ہی لے رہے ہیں۔ اس پر اپنی رائے نہیں دے سکتے۔‘
تاہم اس کال کے بعد 15 نومبر کو تحریک انصاف کی دستیاب قیادت کے کئی سرکردہ رہنماؤں نے سینیئر صحافیوں سےآف دی ریکارڈ گفتگو میں کہا کہ ’یہ کال مناسب وقت پر نہیں دی گئی۔ وہ کوشش کریں گے کہ یہ کال واپس لے لی جائے اور اس حوالے سے وہ جیل میں جا کر عمران خان کو منانے کی کوشش بھی کریں گے۔‘
یہ آف دی ریکارڈ گفتگو کے حصے اخبارات میں بھی چھپے، جس سے عمومی تاثر ملا کہ یہ کال بھی نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ عمران خان نے جلدی کی ہے اور مشاورت نہیں کی۔
بشریٰ بی بی 24 نومبر کے احتجاج کے لیے متحرک ہو گئی ہیں۔ (فوٹو: ایکس)
لیکن اس حتمی کال کے بعد بشری بی بی نے وزیراعلٰی ہاؤس پشاور میں 16 نومبر کو پنجاب اور خیبرپختونخوا کے اراکین اسمبلی سے ایک طویل ملاقات کی اور تیاریوں کے حوالے سے ٹاسک سونپے۔
انہوں نے کہا اگر ہر ایم این اے 10 ہزار اور ایم پی اے پانچ ہزار افراد کو لے کر نہ آئے تو ان کو اگلے انتخابات میں ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ دو روز بعد ان کے مبینہ خطاب کی آڈیو سوشل میڈیا پر لیک ہو گئی۔
ایسی کال جس پر پہلے دن سے تحریک انصاف کے اپنے رہنما خوش نہیں تھے۔
منگل 19 نومبر کو ہونے والے کئی ایک واقعات نے صورتحال کو اور بھی کنفیوز کر دیا ہے۔ سب سے پہلے وزیراعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اور چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے دن کے آغاز میں ہی دوگھنٹے تک عمران خان سے ملاقات کی۔ اس کے بعد علی امین گنڈا پور ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔
علیمہ خان نے کہا کہ عمران خان نے بیرسٹر گوہر اور علی امین کواسٹبلشمنٹ سے مذاکرات کی اجازت دے دی۔ (فوٹو: ایکس)
منگل کو ہی سینیٹر فیصل واوڈا نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ احتجاج کی کال محض شور شرابا ہے اور حقیقت میں کچھ نہیں۔ تاہم گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے البتہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ یہ خبر دے رہے ہیں کہ عمران خان کئی وجوہات کی بنیاد پر احتجاج کی کال واپس لے لیں گے۔ اور یہ کال 23 نومبر کو واپس لے لی جائے گی۔
شام کو علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر اور وزیراعلٰی علی امین گنڈا پور کی عمران خان سے ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ وہ عمران خان سے مذاکرات کرنے کی اجازت لینے گئے تھے۔ اور خان نے انہیں جمعرات 21 نومبر تک کا وقت دیا ہے۔ کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کر لیں اگر مذاکرات کامیاب ہوئے تو 24 کی کال کو جشن میں تبدیل کر دیا جائے گا۔
یوں اب بھی 24 نومبر کی حتمی کال پر خود تحریک انصاف میں بھی پوری طرح یکسوئی نہیں کہ احتجاج ہو گا یا نہیں۔