حال ہی میں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انڈین بحریہ کے سربراہ نے کہا کہ انڈیا پاکستانی بحریہ کی ’حیرت انگیز ترقی‘ سے پوری طرح آگاہ ہے، جو آئندہ برسوں میں اپنے موجودہ بحری بیڑے کی صلاحیت 50 بحری جہازوں تک بڑھانے کیکوشش کر رہی ہے۔
پاکستان اور انڈیا جنوبی ایشیا میں دو ایسے ہمسایہ ممالک ہیں جو ماضی میں تین باقاعدہ بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں اور اس کے علاوہ متعدد ایسے مواقع بھی آئے جب یہ دونوں چوتھی باقاعدہ جنگ کے دہانے سے واپس پلٹے۔
تعلقات میں گذشتہ 77 برسوں سے چلی آ رہی یہ کشیدگی ہی ہے جس کے باعث دونوں ممالک کی عسکری قیادتیں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے کوشاں بھی رہتی ہیں اور ایک دوسرے کی عسکری قوت پر نظر بھی رکھتی ہیں۔
ایسا ہی ایک لمحہ رواں ماہ کے اوائل میں اُس وقت آیا جب انڈین بحریہ کے سربراہ ایڈمرل دینیش ترپاٹھی نے پاکستانی بحریہ کی بڑھتی ہوئی طاقت اور چین سے اس کے اشتراک پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے انڈین بحریہ کے سربراہ نے کہا کہ انڈیا پاکستانی بحریہ کی ’حیرت انگیز ترقی‘ سے پوری طرح آگاہ ہے، جو آئندہ برسوں میں اپنے موجودہ بحری بیڑے کی صلاحیت 50 بحری جہازوں تک بڑھانے کیکوشش کر رہی ہے۔
ایڈمرل ترپاٹھی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اُن (پاکستان) کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کے بارے میں پوری طرح آگاہ ہیں، اسی لیے ہم اپنے مفادات پر پڑنے والے کسی ممکنہ منفی اثر کو زائل کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی اور آپریشنل منصوبے میں تبدیلی کر رہے ہیں۔ ہم کسی بھی چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اِس وقت چین پاکستانی بحریہ کی بحری جہاز اور آبدوزیں بنانے میں مدد کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ حالیہ برسوں میں چین کی بحری طاقت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب کہا جاتا ہے کہ اس کے بحری بیٹرے میں اب امریکہ سے زیادہ جہاز موجود ہیں اور اس نے بحر ہند میں کئی ریسرچ اورجاسوسی کرنے والے جہاز مستقل طور پر تعینات کر رکھےہیں۔
انڈین بحریہ کے سربراہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب انڈیا اور پاکستان کئی برس سے اپنی بحریہ کو وسعت دینے میں مصروف ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق حالیہ برسوں میں دنیا کے بدلتے ہوئے سکیورٹی پس منظر میں جنگی حکمت عملی میں بحریہ مزیداہمیت اختیار کر گئی ہے۔
انڈین بحریہ کن صلاحتیوں کی حامل ہے؟
بی بی سی نے پاکستان اور انڈیا میں عسکری ذرائع سے دونوں ممالک کی بحری افواج کے پاس موجود جنگی جہازوں، آبدوزوں اور ہوائی جہازوں کی تفصیلات حاصل کی ہیں۔
انڈین بحریہ کے مطابق اُن کے پاس اِس وقت چھوٹے بڑے بحری جہازوں کی تعداد 150 ہے جبکہ ان کے پاس دو طیارہ بردار جہاز بھی موجود ہیں، اس کے علاوہ انڈیا کے پاس 16 کنوینشل یعنی روایتی جبکہ دو نیوکلیئر پاورڈ آبدوزیں بھی موجود ہیں۔
انڈین بحریہ کے مطابق اُن کے پاس 275 طیارے، ہیلی کاپٹر اور ڈرونز بھی موجود ہیں، جبکہ 50 بحری جہاز اور آبدوزیں تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں۔
انڈیا نے حال ہی میں ایک اپنا طیارہ بردار بحری جہاز ’آئی این ایس وراٹ‘ بنایا ہے، جبکہ حکومت نے ایک اور طیارہ بردار بحری جہاز کی منظوری دی ہے جسے بننے میں ابھی کئی برس لگیں گے۔ اس وقت انڈین بحریہ کے پاس روسی ساخت کا طیارہ بردار جہاز ’آئی این ایس وکرم ادتیہ‘ اور اپنا جہاز ’آئی این ایس وراٹ‘ آپریشن میں ہیں۔
انڈیا نے حالیہ برسوں میں روس کی مدد سے ملک میں دو جوہری آبدوزیں بنائی ہیں جبکہ مزید دو آبدوزیں آئندہ سالوں میں فعال ہوں گی۔
دفاعی تجزیہ کار راہل بیدی کا کہنا ہے کہ انڈین بحریہ نے گذشتہ 30-40 برس میں بہت خاموشی سے خود کو وسعت دینے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ ’یہ اس خطے میں پہلی بحریہ تھی جس نے اپنے بیڑے میں طیارہ بردار بحری جہاز شامل کیا تھا۔ 1964 میں انڈین بحریہ نے برطانیہ سے ایچ ایمہرکولیس نامی ایک پرانا طیارہ بردار جہاز خریدا تھا جسے ’آئی این ایس وکرانت‘ کا نام دیا گیا تھا۔‘
تاہم بیدی کے مطابق انڈیا کی بیشتر آبدوزیں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ ’اس کی 16 میں سے نصف کنونشنل آبدوزیں جنگ میں استعمال کے لائق نہیں تاہم اب بحریہ نیوکلیر پاورڈ آبدوزیں حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔‘
بحریہ تین طرح کی ہوتی ہیں: ایک ’براؤن واٹر‘ نیوی، جو سمندر کے اندرونی علاقوں اور دریاؤں وغیرہ کے آس پاس کام کرتی ہے۔ ’گرین واٹر نیوی‘ ساحلی علاقوں کی نگہبانی کے لیے ہوتی ہے جو کہ عموماً12 سے 16 بحری میل کے دائرے میں آپریٹ کرتی ہے اور بنیادی طور پر اپنے ساحلوں اور بحری حدود کی حفاظت کرتی ہے۔
’بلیو واٹر نیوی‘ اپنی بحری حدود سے ہزاروں میل دور تک پیٹرولنگ کرتی ہے اور اپنا حق جتاتی ہے۔ راہُل بیدی کے مطابق انڈین بحریہ اب بلیو واٹر نیوی کے زمرے میں آتی ہے۔
راہل بیدی کہتے ہیں کہ انڈیا کی بحریہ کی صلاحیت پاکستان سے زیادہ ہے لیکن بحری سرحدوں اور خطوں کے تحفظ کی اس کی ذمےداری پاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے۔
پاکستان کی بحری قوت کتنی ہے؟
پاکستان میں عسکری ذرائع کے مطابق بحریہ کے پاس مختلف اقسام کے 45 بحری جہاز ہیں، جن میں چھ آئل ٹینکرز بھی شامل ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستانی بحریہ کے پاس پانچ آبدوزیں موجود ہیں، جبکہ آٹھ آبدوزیں اور متعدد جنگی جہاز ابھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔
اُن کے مطابق پاکستانی بحریہ کے پاس فکسڈ ونگ جہازوں کے تین، روٹری ونگ جہازوں کے تین اور ڈرونز کی بھی ایک سکواڈرن موجود ہے۔
خیال رہے ایک سکواڈرن میں متعدد طیارے ہوتے ہیں اور بی بی سی کے پاس ان طیاروں کی تعداد کے حوالے سے معلومات موجود نہیں ہے۔
پاکستان کی ساحلی پٹی 1200 سے 1300 کلومیٹر لمبی ہے۔
تاہم دونوں ممالک کے دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دو ممالک کی نیول فورسز کا موازنہ اُن کے پاس موجود جنگی ساز و سامان کی بنیاد پر کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ زمینی حقائق کے مطابق ہر ملک کی بحریہ کا مقصد الگ ہوتا ہے۔
ریئر ایڈمرل ریٹائرڈ فیصل شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستانی نیوی کا مِشن دراصل دفاعی نوعیت کا ہے جس کا مقصد اپنی سمندری سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ چونکہ ہماری 90 فیصد سے زیادہ تجارت سمندر کے ذریعے ہوتی ہے تو ہمیں امن اور جنگ دونوں زمانوں میں اس کی حفاظت کرنی ہے۔ اس کے لیے جو چیزیں چاہییں ہم ان کا بندوبست کرتے ہیں۔‘
پاکستانی بحریہ کی ’بڑھتی ہوئی صلاحتیں‘ اور انڈیا کو چین کے کردار پر تشویش
پاکستان سے تعلق رکھنے والے دفاعی ماہرین کی رائے ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کی بحریہ نے انتہائی تیزی سے ترقی کی ہے اور پاکستانی قیادت کو انڈیا کی اس (ترقی) میں دلچسپی کا بخوبی اندازہ ہے۔
پاکستان کی بحریہ ہر دو برس بعد مشقیں کرتی ہے تاکہ کسی بھی جنگ کی صورت میں پیچیدہ آپریشنز کی تیاری ہو سکے۔ رواں برس فروری کے مہینے میں بھی ایسی ہی مشقیں سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ہوئی تھی جنھیں ’سی سپارک 2024‘ کا نام دیا گیا تھا۔
ان مشقوں کے دوران پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’سمندر میں آپریشنز کے دوران پاکستانی بحریہ کے جنگی جہازوں اور ہوائی جہازوں نے انڈین بحریہ کے جہازوں، آبدوزوں اور ہوائی جہازوں کی موجودگی کا بھی سراغ لگایا اور وہ پاکستان نیوی کی جنگی مشقوں کا خفیہ طریقے سے مشاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
گذشتہ چند برسوں میں پاکستانی بحریہ نے متعدد نئے جہاز اپنے بیڑے میں شامل کیے ہیں اور کئی نئی جہاز اور آبدوزیں ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔
گذشتہ برس پاکستانی بحریہ نے ترکی میں بنائے گئے جنگی جہاز پی این ایس بابر اور رومانیہ میں بنائے گئے جنگی جہاز ’پی این ایس حنین‘ کو اپنے بیڑے میں شامل کیا تھا۔
اس طرح پاکستان اور چین کے درمیان چار بحری جنگی جہاز بنانے کا معاہدہ سنہ 2018 میں ہوا تھا اور گذشتہ برس یہ معاہدہ اس وقت مکمل ہوا جب چین نے دو ٹائپ 054 اے جنگی جہاز پاکستان کے حوالے کیے۔ اس سے قبل بھی چین ایسے ہی دو جہاز پاکستان کے حوالے کر چکا تھا۔
خبررساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق ’پاکستان نے چین کو آٹھ ہنگور کلاس آبدوزیں بنانے کا آرڈر بھی دے رکھا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ تمام آبدوزیں سنہ 2028 تک پاکستانی بحریہ کے بیڑے میں شامل کر لی جائیں گی۔‘
وائس ایڈمرل ریٹائرڈ احمد تسنیم پاکستانی بحریہ کے وہ سابق کمانڈر ہیں جو سنہ 1971 میں پاکستانی آبدوز پی این ایس ہنگور کے کمانڈر تھے اور ان ہی کی قیادت میں پاکستان نے انڈین بحری جہاز آئی این ایس کھکری کو تباہ کیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بحریہ نے گذشتہ 15 برسوں میں برق رفتاری سے ترقی کی ہے اور اس سب کی وجہ وہ بحریہ کی قیادت کو سمجھتے ہیں۔
بی بی سی اردو سے گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں فیصلہ سازوں کو سمندر کی اہمیت دیر سے سمجھ آئی اور ’جب حکومتوں نے اسے نظر انداز کرنا چھوڑا‘ تو پاکستانی بحریہ کی ترقی کی رفتار تیز ہو گئی۔
پاکستانی بحریہ کی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ہم نے خاموشی سے فنڈ حاصل کیے، نئے پلیٹ فارمز حاصل کیے، اچھے ہتھیار اور سینسرز خریدے۔‘
وائس ایڈمرل ریٹائرڈ احمد تسنیم کہتے ہیں کہ پاکستانی بحریہ کی دیگر ممالک کے ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی کی جو پالیسی ہے یہ انتہائی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ابھی حال ہی میں ترکی اور رومانیہ میں بنائے گئے جہاز بھی پاکستانی بحریہ میں شامل کیے گئے ہیں اور مستقبل قریب میں پاکستانی بحریہ کے پاس 50 تک بحری جنگی جہاز آ جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان اور چین مل کر ابھی چار آبدوزیں بنا رہے ہیں ’جن میں سے چار چین جبکہ چار کراچی کے شپ یارڈ میں بن رہی ہیں۔‘
ان کے مطابق پاکستان کی بحریہ دیگر بحری جنگی جہاز بنانے پر بھی کام کر رہی ہے جس کے کچھ پُرزے پاکستان اور کچھ دیگر ممالک میں بن رہے ہیں۔
دوسری جانب انڈین دفاعی تجزیہ کار راہُل بیدی کا دعویٰ ہے کہ ’پاکستان نے چین کے ذریعے اپنے جہاز، میزائل اور آبدوزیں بنانے کی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین نے پاکستان کو ایریا ڈینائل نامی دو میزائل دیے ہیں جن کی رینج 200 سے 400 کلومیٹر تک ہے اور یہ طیارہ بردار بحری جہازوں کو بھی باآسانی نشانہ بنا سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’چین کو پاکستان کی بحری صلاحیت بڑھانے میں بہت دلچسپی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ چین کی بحریہ بحر ہند میں زیادہ کام کرتی ہے اور اگر پاکستان بحیرِہ عرب کا محاذ سنبھال لیتا ہے تو چین کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے پاس جو کنوینشنل آبدوزیں ہیں اس صلاحیت کی آبدوزیں انڈیا کے پاس بھی نہیں ہیں۔‘
دوسری جانب پاکستانی بحریہ کے سابق افسر ریئر ایڈمرل فیصل شاہ کہتے ہیں کہ اس خطے پر امریکی اور چین کے درمیان جاری مقابلے کا اثر بھی پڑ رہا ہے اور اس کا فائدہ انڈیا کو ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے امریکہ نے ’انڈو پیسیفک حکمت عملی‘ تیار کی ہے۔
’امریکہ کہتا تو ہے کہ یہ کثیرالاقوامی پالیسی ہے لیکن دراصل یہ ہم خیال ممالک کے ساتھ اتحاد بنانے کی حکمت عملی ہے۔‘
ریئر ایڈمرل فیصل شاہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں امریکہ نے کواڈ نما اتحاد بنایا جس میں امریکہ، انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
’اس میں انھوں نے انڈیا کو شامل کیا ہے اور اس میں اقتصادی، عسکری اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے تعاون کیا جا رہا ہے۔ ان تمام شعبوں میں انڈیا کو ہونے والے فائدہ ہمارے لیے اچھا نہیں کیونکہ وہ ہمارے مخالف ہیں۔‘
کیا پاکستانی اور انڈین بحریہ کے مقاصد مختلف ہیں؟
دفاعی جریدے ’فورس‘ کے ایڈیٹر پروین ساہنی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پاکستان نے ’سی کنٹرول‘ کے بجائے ’سی ڈینائل‘ کی پالیسی پر عمل کیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس بجٹ کم تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سی ڈینائل‘ کی پالیسی میں آبدوزوں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے کیونکہ وہ زیرِ سمندر رہ کر اپنے ہدف پر حملہ آور ہو سکتی ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان کے پاس موجود منی آبدوزیں سو میٹر کی گہرائی تک جا سکتی ہیں اور یہ بحری سرحدوں کی حدود کے نزدیک کام کرتی ہیں، یعنی اگر دشمن کا کوئی جہاز ان کے بحری حدود کے نزدیک آتا ہے تو وہ اس پر حملہ کر سکتی ہیں۔
پروین ساہنی اس بات سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان کی بحریہ آج طاقتور ہو چکی ہے اور کہتے ہیں کہ ’مجھے اس میں کوئی حیرانی نہیں ہو گی اگر چین کی مدد سے پاکستان زیر سمندر چھوڑے جانے والے کچھ ڈرون بھی بنا رہا ہو جو وہ اپنی بحریہ میں شامل کر سکے گا۔‘
انڈیا کو پاکستانی بحریہ سے لاحق تشویش پر روشنی ڈالتے ہوئے پروین ساہنی کہتے ہیں کہ ’خلیج فارس اور بحر احمر کے راستے انڈیا کا بیشتر تیل آتا ہے اور یورپ سے تجارت ہوتی ہے۔ جبوتی میں چین کا بحری اڈہ ہے، ادھر کراچی ، گوادر اور مکران کے سمندری خطے میں پاکستان کی بحریہ سرگرم ہے۔ اس خطے میں پاکستان اور چین کی طاقت بہت بڑھ گئی ہے۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’انڈیا نے سمندر میں اپنی ذمہ داری اپنی موجودہ صلاحیتوں سے زیادہ بڑھالی ہے۔‘
اُن کے مطابق ’پاکستان جن بحری علاقوں کی حفاظت کر رہا ہے وہ رقبے کے لحاظ سے انڈیا کے مقابلے میں بہت کم ہیں، یعنی پاکستان پر ذمہ داری بھی کم ہے اور اس کو صرف بحیرہ عرب پر نظر رکھنی ہے اور وہیں لڑائی بھی لڑنی ہے۔‘
دوسری جانب پروین ساہنی کے مطابق انڈیا کی بحریہ نے اپنے دائرہ بحر ہند سے بڑھا کر ساؤتھچائنا سی اور پیسیفک اوشین (بحر الکاہل) تک پھیلا لیا ہے۔
’انڈیا کی فوج یا بحریہ کے پاس وہ طاقت نہیں ہے جوبہت دور تک جا کر مفادات کا تحفظ کر سکے۔ انڈیا نے تھیوری میں اپنی پہنچ عالمی طاقتوں کی طرح بڑھا دی ہے لیکن اتنی دور تک اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی اس میں صلاحیت نہیں ہے۔‘
ریئر ایڈمرل ریٹائر فیصل شاہ کہتے ہیں کہ گذشتہ دو دہائیوں میں انڈین بحریہ نے خود پر کافی سرمایہ لگایا ہے اور وہ ’اس علاقے میں تھانیدار کا کردار نبھانا چاہتے ہیں۔‘
’فی الحال تو ان کے پاس اتنی صلاحیت نہیں ہے جو انھوں نے خود پر نیٹ سکیورٹی پروائیڈر کا لیبل لگایا ہے، یعنی جو کچھ علاقے میں ہو رہا ہے آپ کی اس پر نظر ہے اور اس سب سے نمٹنے کے لیے آپ کے پاس قابلیت و وسائل ہونے چاہییں، یہ صلاحیت فی الحال تو ان کے پاس نہیں ہے لیکن یہ ان کا مقصد ہے اور آج نہیں تو کل وہ اس تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔‘
دوسری جانب اس خطے کی تین قوتوں انڈیا، چین اور پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے پروین ساہنی کہتے ہیں کہ ’جہاں تک فوجی طاقت کا سوال ہے انڈیا اور چین کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ جہاں تک انڈیا اور پاکستان کے موازنہ کا سوال ہے آج پاکستان کی بحریہ اور فضائیہ چین کی مدد سے بہت طاقتور ہو چکے ہیں۔‘
ریئر ایڈمرل ریٹائرڈ فیصل شاہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تینوں افواج بشمول بحریہ کا مقصد اپنی زمین کا دفاع کرنا ہے اور ان کے پاس جارحانہ صلاحیتیں بھی ہیں۔
’لیکن ہمارے کوئی جارحانہ عزائم نہیں ہیں کہ ہم نے کسی علاقے میں جانا ہے یا کہیں قبضہ کرنا ہے۔ مگر ہم ایک مضبوط فورس ہیں اور اپنی زمین کے انچ انچ کا دفاع کر سکتے ہیں۔‘