ڈیپ سیک کو ایپ اسٹورز سے کیوں ہٹا دیا گیا؟

image

جنوبی کوریا نے چینی ایپ "ڈیپ سیک" کو پرائیویسی مسائل کی وجہ سے ایپ اسٹورز سے ہٹا دیا ہے، اور یہ قدم عالمی سطح پر اس ایپ کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کے بیچ اٹھایا گیا ہے۔

بین الاقوامی ذرائع کے مطابق، جنوبی کوریا کے پرائیویسی واچ ڈاگ نے پیر کے روز اعلان کیا کہ ڈیپ سیک کے آر ون چیٹ بوٹ کو ایپل کے ایپ اسٹور اور گوگل پلے سے ہٹا لیا گیا ہے تاکہ چینی اسٹارٹ اپ کی پرائیویسی پالیسیوں کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس فیصلے کے بعد کمپنی نے اعتراف کیا کہ وہ ذاتی معلومات کے تحفظ کے قوانین پر پورا نہیں اتر سکی۔

یہ چینی ایپ اپنے مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹ کی بدولت دنیا بھر میں تیزی سے مقبول ہوئی، خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں، جہاں اس ایپ کو لانچ ہوتے ہی زبردست پزیرائی حاصل ہوئی۔ ایک ہفتے میں یہ ایپ امریکہ میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ بن گئی، جس سے امریکی اور یورپی ٹیک کمپنیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

امریکہ میں اس کی مقبولیت کے بعد، ٹیکنالوجی کے شعبے میں اسٹاک ایکسچینج پر منفی اثرات دیکھنے کو ملے، اور یہاں تک کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ایپ کو خطرناک قرار دے دیا۔ انہوں نے ایک تنبیہ بھی کی کہ اتنی سستی چینی ایپ کی لانچ کے بعد امریکہ کی ٹیک انڈسٹری کو زیادہ چوکنا رہنا چاہیے۔

اس کے بعد، امریکی بحریہ نے بھی ڈیپ سیک پر پابندی عائد کرتے ہوئے اپنے اہلکاروں کو سخت ہدایات جاری کر دیں کہ وہ اس ایپ کے آر ون ماڈل کو کسی بھی کام کے لیے استعمال نہ کریں۔

اوپن اے آئی کے مالک نے بھی ڈیپ سیک کی کامیابی کو متاثر کن قرار دیا ہے، تاہم، ان کا کہنا تھا کہ وہ اس ایپ کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔

یاد رہے کہ ڈیپ سیک ایک AI چیٹ بوٹ ہے جو صرف چھ ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہوا تھا، اور چینی کمپنی نے دعویٰ کیا کہ یہ ایپ حساب کتاب، کوڈنگ اور دیگر شعبوں میں اوپن اے آئی کے جدید ماڈل سے بھرپور مقابلہ کر سکتی ہے۔


About the Author:

Khushbakht is a skilled writer and editor with a passion for crafting compelling narratives that inspire and inform. With a degree in Journalism from Karachi University, she has honed her skills in research, interviewing, and storytelling.

مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.